فضائل اعمال ۔ یونیکوڈ ۔ غیر موافق للمطبوع |
|
مُحاسَبہ کرتا رہے گا اُس کی زبان بے فائدہ کلام میں کم چلے گی۔ عاقل کے لیے ضروری ہے کہ: تین چیزوں کے عِلاوہ سفر نہ کرے: یا آخرت کے لیے توشہ مقصود ہو، یا کچھ فکرِ مَعاش ہو، یاتفریح بہ شرطے کہ مُباح ہو۔ مَیں نے پوچھا کہ: یارسولَ اللہ! حضرت موسیٰ ںکے صحیفوں میں کیا چیز تھی؟ ارشاد فرمایا کہ: سب کی سب عبرت کی باتیں تھیں، مثلاً: مَیںتعجب کرتا ہوں اُس شخص پر کہ جس کو موت کا یقین ہو پھر کسی بات پر خوش ہو؛ (اِس لیے کہ جب کسی شخص کو مثلاً یہ یقین ہوجاوے کہ مجھے پھانسی کا حکم ہوچکا، عنقریب سُولی پر چڑھنا ہے، پھر وہ کسی چیز سے خوش نہیں ہوسکتا)۔ مَیں تعجب کرتا ہوں اُس شخص پر کہ اُس کو موت کا یقین ہے پھر وہ ہنستا ہے۔ مَیں تعجب کرتا ہوں اُس شخص پر جو دنیا کے حوادِث، تغیُّرات، اِنقلابات ہر وقت دیکھتا ہے پھر دنیا پر اطمینان کرلیتا ہے۔ مَیں تعجب کرتا ہوں اُس شخص پر کہ جس کو تقدیر کا یقین ہے پھر رنج ومَشقَّت میں مبتلا ہوتا ہے۔ مَیں تعجب کرتا ہوں اُس شخص پر جس کو عنقریب حساب کا یقین ہے پھر نیک اعمال نہیں کرتا۔ مَیں نے عرض کیا: یا رسولَ اللہ! مجھے کچھ وَصیت فرمائیں، حضورﷺنے سب سے اوَّل تقویٰ کی وصیت فرمائی، اور ارشاد فرمایا کہ: یہ تمام اُمور کی بنیاد اور جڑ ہے۔ مَیں نے عرض کیا کہ: کچھ اَور بھی اِضافہ فرمادیجیے، ارشاد ہوا کہ: تلاوتِ قرآن اور ذکرُ اللہ کا اہتمام کر، کہ یہ دنیا میں نور ہے اور آسمان میں ذخیرہ ہے۔ مَیں نے اَور اضافہ چاہا تو ارشاد ہواکہ: زیادہ ہنسی سے احتراز کرو، کہ اِس سے دل مَرجاتا ہے اور چہرے کی رونق جاتی رہتی ہے، (یعنی ظاہر وباطن دونوں کونقصان پہنچادینے والی چیز ہے)۔ مَیں نے اَور اِضافے کی درخواست کی تو ارشاد ہوا کہ: جہاد کا اہتمام کر، کہ میری اُمَّت کے لیے یہی رہبانِیت ہے، (’’راہب‘‘ پہلی اُمتوں میں وہ لوگ کہلاتے تھے کہ جو دنیا کے سب تعلُّقات مُنقطِع کرکے اللہ والے بن جاویں)۔ مَیں نے اَور اضافہ چاہا تو ارشاد ہوا کہ: فُقَرا، مساکین کے ساتھ مَیل جول رکھ، اُن کو دوست بنا، اُن کے پاس بیٹھا کر۔ مَیں نے اَور اِضافہ چاہا تو ارشاد ہوا کہ: اپنے سے کم درجے والے پر نگاہ رکھا کر (تاکہ شکر کی عادت ہو)، اپنے سے اُوپر کے درجے والوں کو مت دیکھ، مَبادا اللہ کی نعمتوں کی جو تجھ پر ہیں، تحقیر کرنے لگے۔ مَیں نے اَور اِضافہ چاہا تو ارشاد ہوا کہ: تجھے اپنے عُیوب لوگوں پر حرف گِیری سے روک دیں، اور اُن کے عیوب پر اِطِّلاع کی کوشش مت کر کہ تُو اُن میں خود مبتلا ہے، تجھے عیب لگانے کے لیے کافی ہے کہ تُو لوگوں میں ایسے عیب پہچانے جو تجھ میں خود موجود ہے اور تُو اُن سے بے خبر ہے، اور