فضائل اعمال ۔ یونیکوڈ ۔ غیر موافق للمطبوع |
|
آسمان والوں کے لیے ایسے چمکتے ہیں جیسا کہ زمین والوں کے لیے آسمان پر ستارے۔ یہ حدیث ’’ترغیب‘‘ وغیرہ میں اِتنی ہی نقل کی گئی، یہ مختصر ہے، اصل روایت بہت طویل ہے جس کو ابنِ حِبَّانؒ وغیرہ سے مُلَّا علی قاریؒ نے مُفصَّل اور سیوطیؒ نے کچھ مختصر نقل کیا ہے، اگرچہ ہمارے رسالے کے مُناسب اُتنا ہی جُزو ہے جو اوپر گزر چکا؛ مگر چوںکہ پوری حدیث بہت سے ضروری اور مفید مضامین پر مشتمل ہے؛ اِس لیے تمام حدیث کا مطلب نقل کیا جاتاہے، جو حَسبِ ذَیل ہے: ’’ابو ذرص کہتے ہیں کہ: مَیں نے حضورِ اکرم ﷺسے پوچھا کہ: حق تَعَالیٰ شَانُہٗ نے کُل کتابیں کس قدر نازل فرمائی ہیں؟ آپ ﷺنے ارشاد فرمایا کہ: سو صحائف اور چار کتابیں، پچاس صحیفے حضرت شیث ں پر، اور تیس صحیفے حضرت ادریسں پر، اوردس صحیفے حضرت ابراہیم ں پر، اور دس صحیفے حضرت موسیٰں پر تورات سے پہلے، اور اِن کے عِلاوہ چار کتابیں: تورات، انجیل، زبور اور قرآن شریف نازل فرمائی ہیں۔ مَیں نے پوچھا کہ: حضرت ابراہیم ں کے صحیفوں میں کیا چیزتھی؟ ارشاد فرمایا کہ: وہ سب ضَرب المَثَلیں تھیں، مثلاً: او مُتَسلِّط ومغرور بادشاہ! مَیں نے تجھ کو اِس لیے نہیں بھیجا تھا کہ تُوپیسے پر پیسے جمع کرتا رہے، مَیں نے تجھے اِس لیے بھیجا تھا کہ مجھ تک مظلوم کی فَریاد نہ پہنچنے دے، تُو پہلے ہی اُس کا انتظام کردے؛ اِس لیے کہ مَیں مظلوم کی فریاد کو رَد نہیں کرتا اگرچہ فریادی کافر ہی کیوں نہ ہو۔ بندۂ ناچیز کہتا ہے کہ: حضورِ اکرم ﷺجب اپنے صحابہ کو امیر اور حاکم بناکر بھیجا کرتے تھے تو مِن جُملہ اَور نَصائِح کے اِس کو بھی اہتمام سے فرمایا کرتے تھے: وَاتَّقِ دَعوَۃَ المَظْلُومِ، فَإنَّہٗ لَیسَ بَینَهَا وَبَینَ اللہِ حِجَابٌ: کہ مظلوم کی بد دُعا سے بچنا؛ اِس لیے کہ اُس کے اور اللہ جَلَّ شَانُہٗکے درمیان میں حِجاب اور واسطہ نہیں: بِتَرس از آہِ مَظلُوماں کہ ہَنگامِ دُعا کَردَن ء اِجابت از درِ حق بہرِ اِستقبال مِی آیَد نیز اُن صحیفوں میں یہ بھی تھا کہ: عاقل کے لیے ضروری ہے جب تک کہ وہ مَغلُوبُ العَقل نہ ہوجائے کہ، اپنے تمام اوقات کو تین حصوں پر مُنقسِم کرے: ایک حصے میں اپنے رب کی عبادت کرے، اور ایک حصے میں اپنے نفس کا مُحاسَبہ کرے، اور سوچے کہ کتنے کام اچھے کیے اور کتنے بُرے؟ اور ایک حصے کو کَسبِ حلال میںخرچ کرے۔ عاقل پر یہ بھی ضروری ہے کہ، اپنے اوقات کی نگہبانی کرے، اپنے حالات کی دُرستگی کے فکر میں رہے، اپنی زبان کی فُضول گوئی اور بے نفع گفتگو سے حفاظت کرے، جو شخص اپنے کلام کا