فضائل اعمال ۔ یونیکوڈ ۔ غیر موافق للمطبوع |
|
آیات ایسی بھی ہیں جن کے ظاہری معنیٰ کا اِطلاق حق سُبحَانَہٗ وَتَقَدُّس پر صحیح نہیں؛ اِس لیے اُن میں کسی تاویل کی ضرورت پڑے گی، جیسی کہ﴿یَدُ اللہِ فَوقَ أیْدِیْهِمْ﴾. دسویں: اصولِ فقہ کا معلوم ہونا ضروری ہے، کہ جس سے وجوہِ استدلال واِستنباط معلوم ہوسکیں۔ گیارہویں: اسبابِ نزول کا معلوم ہونا بھی ضروری ہے، کہ شانِ نزول سے آیت کے معنیٰ زیادہ واضح ہوںگے، اور بَسا اوقات اصل معنیٰ کا معلوم ہونا بھی شانِ نزول پر موقوف ہوتا ہے۔ بارہویں: ناسخ ومَنسوخ کا معلوم ہونا بھی ضروری ہے، کہ جُزئیات کے اِحاطے سے کُلِّیات پہچانے جاتے ہیں۔ چودہویں: اُن احادیث کا جاننا ضروری ہے جو قرآنِ پاک کی مُجمَل آیات کی تفسیر واقع ہوئی ہیں۔ اِن سب کے بعد … پندرہواں: وہ علمِ وہبی ہے جو حق سُبحَانَہٗ وَتَقَدُّس کاعطیۂ خاص ہے، اپنے مخصوص بندوں کوعطا فرماتا ہے، جس کی طرف اِس حدیث شریف میں اشارہ ہے: مَنْ عَمِلَ بِمَا عَلِمَ وَرَّثَہُ اللہُ عِلْمَ مَالَمْ یَعْلَمْ(جب کہ بندہ اُس چیز پر عمل کرتا ہے جس کو جانتا ہے، تو حقتَعَالیٰ شَانُہٗ ایسی چیزوں کا علم عطا فرماتے ہیں جن کو وہ نہیں جانتا)۔ اِسی کی طرف حضرت علی کَرَّمَ اللہُ وَجْہَہٗ نے اشارہ فرمایا، جب کہ اُن سے لوگوں نے پوچھا کہ: حضورِ اکرم ﷺنے آپ کو کچھ خاص علوم عطا فرمائے ہیں یا خاص وَصایا جو عام لوگوں کے عِلاوہ آپ کے ساتھ مخصوص ہیں؟ اُنھوں نے فرمایا کہ:قَسم ہے اُس ذاتِ پاک کی جس نے جنت بنائی اور جان پیدا کی، اُس فہم کے عِلاوہ کچھ نہیں ہے جس کو حقتَعَالیٰ شَانُہٗ اپنے کلامِ پاک کے سمجھنے کے لیے کسی کو عطا فرماویں۔ ابنِ ابی الدُّنیا کا مَقُولہ ہے کہ: علومِ قرآن اور جو اُس سے حاصل ہو وہ ایسا سمندر ہے کہ جس کا کنارہ نہیں۔ یہ علوم جو بیان کیے گئے مُفسِّر کے لیے بہ طورِ آلہ کے ہیں، اگر کوئی شخص اِن علوم کی واقفیت بغیر تفسیر کرے تو وہ تفسیر بالرائے میںداخل ہے جس کی مُمانَعت آئی ہے۔ صحابہث کے لیے علومِ عربیہ طبعاً حاصل تھے، اوربقیہ علوم مشکوۃِ نُبوَّت سے مُستَفاد تھے۔ علاَّمہ سیوطیؒ کہتے ہیں کہ: شاید تجھے خَیال ہو کہ علمِ وہبی کا حاصل کرنا بندے کی قدرت سے باہر ہے؛ لیکن حقیقت ایسی نہیں؛ بلکہ اُس کے حاصل کرنے کا طریقہ اُن اسباب کا حاصل کرنا ہے جس پرحقتَعَالیٰ شَانُہٗ اُس کومُرتَّب فرماتے ہیں، مثلاً: علم پر عمل، اور دنیا سے بے رغبتی،وغیرہ وغیرہ۔