فضائل اعمال ۔ یونیکوڈ ۔ غیر موافق للمطبوع |
|
تَرْضَوْنَہَآ أَحَبَّ إِلَیْکُمْ مِّنَ اللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ وَجِہَادٍ فِيْ سَبِیْلِہٖ، فَتَرَبَّصُوْا حَتّٰی یَأْتِيَ اللّٰہُ بِأَمْرِہٖ، وَاللّٰہُ لَایَہْدِيْ الْقَوْمَ الْفَاسِقِیْنَ﴾ (ترجَمہ:) آپ اُن سے کہہ دیجیے کہ: اگر تمھارے باپ اور تمھارے بیٹے اور تمھارے بھائی اورتمھاری بیبیاں اور تمھارا کُنبہ اور وہ مال جو تم نے کمائے ہیں، اور وہ تجارت جس میںنِکاسی نہ ہونے کا تم کو اندیشہ ہو، اور وہ گھر جس کو تم پسند کرتے ہو، (اگر یہ سب چیزیں)تم کو اللہ سے اوراُس کے رسول سے اور اُس کی راہ میں جہاد کرنے سے زیادہ پیاری ہو، تو تم مُنتَظر رہو یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اپنا حکم بھیج دیں، اور اللہ تعالیٰ بے حکمی کرنے والوں کو اُن کے مَقصودتک نہیں پہنچاتا۔ (بیان القرآن) اِس آیتِ شریفہ میں اللہ تعالیٰ اور اُس کے رسول ﷺکی محبت کے اِن سب چیزوں سے کم ہونے پر وعید ہے۔ حضرت انس صفرماتے ہیں کہ: حضورِ اقدس ﷺکاارشاد ہے کہ: تم میں سے کوئی شخص اُس وقت تک مؤمن نہیں ہوسکتا جب تک اُس کو میری محبت اپنے باپ اور اولاد اور تمام لوگوںسے زیادہ نہ ہوجائے۔ حضرت ابوہریرہ ص سے بھی یہی مضمون نقل کیاگیا ہے۔ عُلَما کا اِرشاد ہے کہ: اِن احادیث میں محبت سے محبتِ اِختِیاری مراد ہے، غیر اِختیاری یعنی طَبعی، اِضطِراری مراد نہیں۔ اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ: اگر محبتِ طبعی مراد ہو تو پھرایمان سے مراد کمالِ درجہ کا ایمان ہو، جیسا کہ صحابۂ کرام ث کا تھا۔ حضرت انس ص فرماتے ہیں کہ: حضورِاقدس ﷺ کا ارشاد ہے کہ: تین چیزیں ایسی ہیں کہ جس شخص میں وہ پائی جائیں، ایمان کی حَلاوت اور ایمان کامزہ نصیب ہوجائے: ایک یہ کہ اللہ اور اُس کے رسول ﷺ کی محبت اُن کے ماسِوا سب سے زیادہ ہو، دوسرے یہ کہ جس کسی سے محبت کرے اللہ ہی کے واسطے کرے، تیسرے یہ کہ کُفر کی طرف لوٹنا اُس کو ایسا ہی گِراں اور مشکل ہو جیسا کہ آگ میں گِرنا۔ حضرت عمرص نے ایک مرتبہ عرض کیا کہ: یا رسولَ اللہ! مجھے اپنی جان کے علاوہ اَور سب چیزوں سے آپ زیادہ محبوب ہے، حضورﷺنے ارشاد فرمایا کہ: کوئی شخص مؤمن اُس وقت تک نہیں ہوسکتا جب تک اُس کومیری محبت اپنی جان سے بھی زیادہ نہ ہو، حضرت عمرص نے عرض کیا: یارسولَ اللہ! اب آپ مجھے اپنی جان سے بھی زیادہ محبوب ہیں، تو حضورﷺنے ارشاد فرمایا: اَلْاٰنَ یَاعُمَرَ! (اِس وقت اے عمر!) عُلما نے اِس ارشاد کے دومطلب بتائے ہیں: ایک یہ کہ اِس وقت تمھارا ایمان کامل ہوا ہے۔ دوسرا یہ کہ تنبیہ ہے، کہ اِس وقت یہ بات پیدا ہوئی کہ مَیں تمھیں اپنے نفس سے زیادہ محبوب ہوں؟ حالاںکہ یہ بات اوَّل ہی سے ہوناچاہیے تھی۔