فضائل اعمال ۔ یونیکوڈ ۔ غیر موافق للمطبوع |
|
کی ٹوپی) اوڑھے ہوئے اور ہتھیار لگائے ہوئے پاس کھڑے تھے، اُنھوں نے تلوار کا قَبضہ عُروہ کے ہاتھ پر مارا، کہ ہاتھ پَرے کورکھو، عُروہ نے پوچھا: یہ کون ہے؟ آپ نے فرمایاکہ: مُغِیرہ، عُروہ نے کہا:ا وغَدَّار! تیری غدَّاری کومَیں اب تک بھُگَت رہا ہوں اور تیرا یہ برتاؤ؟ (حضرت مُغِیرہ بن شعبہ ص نے اسلام سے قَبل چند کافروں کو قتل کردیا تھا، جن کی دِیت عُروہ نے ادا کی تھی، اُس کی طرف یہ اشارہ تھا)۔ غرض! عُروہ طویل گفتگو حضورﷺسے کرتے رہے اور نظریں بچاکر صحابۂ کرام ث کے حالات کااندازہ بھی کرتے جاتے تھے، چناںچہ واپس جاکر کُفَّار سے کہاکہ: اے قریش! مَیں بڑے بڑے بادشاہوں کے یہاں گیا ہوں، قَیصَر وکِسریٰ اور نَجَّاشی کے درباروں کو بھی دیکھا ہے، اور اُن کے آداب بھی دیکھے ہیں، خدا کی قَسم! مَیں نے کسی بادشاہ کو نہیں دیکھا کہ اُس کی جماعت اُس کی ایسی تعظیم کرتی ہو جیسی محمد (ﷺ) کی جماعت اُن کی تعظیم کرتی ہے، اگر وہ تھوکتے ہیں تو جس کے ہاتھ پڑجائے وہ اُس کوبدن اور منھ پر مَل لیتا ہے، جو بات محمد ﷺ کے منھ سے نکلتی ہے اُس کے پورا کرنے کو سب کے سب ٹوٹ پڑتے ہیں، اُن کے وُضو کاپانی آپس میں لڑلڑ کر تقسیم کرتے ہیں، زمین پر نہیں گرنے دیتے، اگر کسی کو قطرہ نہ مِلے تو وہ دوسرے کے تَر ہاتھ کو ہاتھ سے مَل کر اپنے منھ پر مَل لیتا ہے، اُن کے سامنے بولتے ہیں توبہت نیچی آوازسے، اُن کے سامنے زور سے نہیں بولتے،اُن کی طرف نگاہ اُٹھاکر ادب کی وجہ سے نہیں دیکھتے، اگر اُن کے سر یا ڈاڑھی کا کوئی بال گرتا ہے تو اُس کو تبرُّکاً اُٹھا لیتے ہیں اور اُس کی تعظیم اور احترام کرتے ہیں؛ غرض مَیں نے کسی جماعت کو اپنے آقا کے ساتھ اِتنی محبت کرتے نہیں دیکھا جتنی محمد(ﷺ)کی جماعت اُن کے ساتھ کرتی ہے۔ اِسی دوران میں حضورِاکرم ﷺ نے حضرت عثمان صکو اپنی طرف سے قاصد بناکر سردارَانِ مکہ کے پاس بھیجا، حضرت عثمان ص کی باوجود مسلمان ہوجانے کے مکہ میںبہت عزت تھی، اور اُن کے متعلِّق زیادہ اندیشہ نہ تھا؛ اِس لیے اُن کوتجویز فرمایا تھا، وہ تشریف لے گئے تو صحابہ ث کو رَشک ہوا کہ عثمان تو مزے سے کعبہ کا طواف کررہے ہوںگے، حضورﷺنے فرمایا: ’’مجھے اُمید نہیں کہ وہ میرے بغیر طواف کریں‘‘، چناںچہ حضرت عثمان ص مکہ میںداخل ہوئے تو وہاں اَبان بن سعید نے اُن کو اپنی پناہ میں لے لیا، اور اُن سے کہا کہ: جہاں دل چاہے چلوپھرو، تم کو کوئی روک نہیں سکتا، حضرت عثمان ص ابوسفیان وغیرہ مکہ کے سرداروں سے ملتے رہے اور حضورﷺ کاپیام پہنچاتے رہے، جب واپس ہونے لگے تو کُفَّار نے خود درخواست کی کہ: تم مکہ میں آئے ہو، تم طواف کرتے جاؤ، اُنھوں نے جواب دے دیا کہ: ’’یہ مجھ سے نہیں