فضائل اعمال ۔ یونیکوڈ ۔ غیر موافق للمطبوع |
|
ارادہ تو تھا ہی نہیں؛ اِس لیے آگے بڑھے چلیں، اگر وہ ہمیںروکیںگے تو مُقابلہ کریںگے؛ ورنہ نہیں، حضورﷺنے اِس کو قَبول فرمایا اور آگے بڑھے، ’’حُدیبیہ‘‘ میں پہنچ کر بُدیل بن وَرْقاخُزاعی ایک جماعت کو ساتھ لے کر آئے، اور حضورﷺسے اِس کا ذکر کیا کہ: کُفَّار آپ کو ہرگز مکہ میں داخل نہ ہونے دیںگے، وہ تو لڑائی پر تُلے ہوئے ہیں، آپ ﷺنے ارشاد فرمایا کہ: ’’ہم لوگ لڑنے کے واسطے نہیں آئے ہیں، ہمارا مقصد صرف عمرہ کرنا ہے، اور قریش کو روزمَرّہ کی لڑائی نے بہت نقصان پہنچا رکھا ہے، بالکل ہلاک کردیا ہے، اگر وہ راضی ہوں تو مَیں اُن سے مُصالَحت کرنے کو تیار ہوں، کہ میرے اور اُن کے درمیان اِس پر مُعاہَدہ ہوجائے کہ وہ مجھ سے تَعرُّض نہ کریں، مَیں اُن سے تعرُّض نہ کروں، مجھے اَوروں سے نِمٹنے دیں، اور اگر وہ کسی چیز پر بھی راضی نہ ہوں تو اُس ذات کی قَسم جس کے قبضے میں میری جان ہے، کہ مَیںاُس وقت تک اُن سے لڑوںگا جب تک کہ اسلام غالب ہوجائے یا میری گردن جُدا ہوجائے‘‘؛ بُدیل نے عرض کیا کہ: اچھا! مَیں آپ کا پَیام اُن تک پہنچائے دیتا ہوں، وہ لوٹے اور جاکر پیام پہنچایا؛ مگر کُفَّار راضی نہ ہوئے، اِسی طرح طرفین سے آمدورفت کا سلسلہ رہا، جن میں ایک مرتبہ عُروہ بن مسعودثَقَفی کُفَّار کی جانب سے آئے، کہ وہ اُس وقت تک مسلمان نہیں ہوئے تھے، بعد میں مسلمان ہوئے، حضورﷺ نے اُن سے بھی وہی گفتگو فرمائی جو بُدیل سے کی تھی، عُروہ نے عرض کیا: اے محمد(ﷺ)! اگر تم یہ چاہتے ہو کہ عرب کا بالکل خاتمہ کردوتو یہ ممکن نہیں، تم نے کبھی نہ سنا ہوگا کہ تم سے پہلے کوئی شخص ایساگزرا جس نے عرب کو بالکل فنا کردیا ہو، اور اگر دوسری صورت ہوئی کہ وہ تم پر غالب ہوگئے تو یاد رکھو کہ مَیں تمھارے ساتھ اَشراف کی جماعت نہیں دیکھتا، یہ اَطراف کے کم ظَرف لوگ تمھارے ساتھ ہیں، مصیبت پڑنے پر سب بھاگ جائیںگے، حضرت ابوبکر صدیق صپاس کھڑے ہوئے تھے، یہ جملہ سن کر غُصَّے میں بھر گئے اور ارشاد فرمایا کہ: ’’تُو اپنے معبود لات کی پیشاب گاہ کوچاٹ، کیا ہم حضوﷺسے بھاگ جائیںگے، اور آپ ﷺکو اکیلا چھوڑ دیںگے؟‘‘ عُروہ نے پوچھا کہ: یہ کون ہیں؟ حضورﷺنے فرمایا کہ: ابوبکر ہیں، اُنھوں نے حضرت ابوبکرص سے مخاطب ہوکر کہا کہ: تمھارا ایک قدیمی اِحسان مجھ پر ہے جس کابدلہ نہیں دے سکا، اگر یہ نہ ہوتا تو اِس گالی کا جواب دیتا، یہ کہہ کر عُروہ پھر حضورﷺسے بات میں مشغول ہوگئے، اور عرب کے عام دستور کے موافق حضورﷺکی ڈاڑھی مبارک کی طرف ہاتھ کو لے جاتے، کہ خوشامد کے موقع پر ڈاڑھی میں ہاتھ لگاکر بات کی جاتی ہے، صحابہ ث کو یہ بات کب گَوارا ہوسکتی تھی؟ عُروہ کے بھتیجے حضرت مُغِیرہ بن شعبہ ص سر پر خَود (لوہے