فضائل اعمال ۔ یونیکوڈ ۔ غیر موافق للمطبوع |
|
حضورِاقدس ﷺنے اُن کی تکلیف کے خیال سے فرمایا کہ: ’’اپنے اسلام کو ابھی ظاہر نہ کرنا، چپکے سے اپنی قوم میںچلے جاؤ، جب ہماراغلبہ ہوجائے اُس وقت چلے آنا‘‘، اُنھوں نے عرض کیاکہ: ’’یارسولَ اللہ! اُس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے، کہ اِس کلمۂ توحید کواُن بے ایمانوں کے بیچ میں چِلَّاکے پڑھوںگا‘‘۔ چناں چہ اُسی وقت مسجدِ حرام میں تشریف لے گئے اوربلند آواز سے ’’أَشْہَدُ أَنْ لَّاإِلٰہَ إِلَّا اللہُ وَأَشْہَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اللہِ‘‘ پڑھا، پھرکیا تھا؟ چاروں طرف سے لوگ اُٹھے اوراِس قدرمارا کہ زخمی کردیااور مرنے کے قریب ہوگئے، حضورﷺ کے چچا حضرت عباس ص -جو اُس وقت تک مسلمان بھی نہیں ہوئے تھے- اُن کے اوپربچانے کے لیے لیٹ گئے، اورلوگوں سے کہا کہ: کیاظلم کرتے ہو؟ یہ شخص قبیلۂ غِفارکا ہے، اوریہ قبیلہ ملکِ شام کے راستے میں پڑتا ہے، تمھاری تجارت وغیرہ سب ملکِ شام کے ساتھ ہے، اگریہ مرگیا توشام کاجاناآنا بندہوجائے گا، اِس پر اُن لوگوں کوخَیال ہوا کہ ملکِ شام سے ساری ضرورتیں پوری ہوتی ہیں، وہاں کاراستہ بندہوجانا مصیبت ہے؛ اِس لیے اِن کوچھوڑدیا، دوسرے دن پھر اِسی طرح اِنھوں نے جاکر بہ آوازِ بلند کلمہ پڑھا، اور لوگ اِس کلمے کے سننے کی تاب نہ لاسکتے تھے؛ اِس لیے اِن پرٹوٹ پڑے، دوسرے دن بھی حضرت عباسص نے اِسی طرح اِن کو سمجھا کر ہٹایا، کہ تمھاری تجارت کاراستہ بند ہوجائے گا۔ (الإصابة في تمییز الصحابة، ۷؍۱۰۵ تا ۱۰۷) فائدہ:حضورﷺ کے اِس ارشاد کے باوجود کہ:’’اپنے اسلام کوچھپاؤ‘‘اُن کا یہ فعل حق کے اظہار کا وَلوَلہ اور غلبہ تھا، کہ جب یہ دین حق ہے توکسی کے باپ کاکیا اِجارہ ہے تاب: برداشت۔ اِجارہ: اختیار۔ جس سے ڈر کر چھپایاجائے؟ اورحضور ﷺ کامنع فرماناشفقت کی وجہ سے تھا،کہ ممکن ہے تکالیف کا تَحمُّل نہ ہو؛ ورنہ حضورﷺ کے حکم کے خلاف صحابہث کی یہ مَجال ہی نہ تھی، چناںچہ اِس کانمونہ مستقل باب میں آرہاہے۔ چوں کہ حضورﷺ خودہی دین کے پھیلانے میں ہر قسم کی تکلیفیں برداشت فرما رہے تھے؛ اِس لیے حضرت ابوذر صنے سہولت پرعمل کے بجائے حضورﷺکے اتباع کوترجیح دی۔ یہی ایک چیزتھی کہ جس کی وجہ سے ہرقِسم کی ترقِّی دینی اوردنیوی صحابۂ کرامث کے قدم چوم رہی تھی، اورہرمیدان اُن کے قبضے میں تھا، کہ جوشخص بھی ایک مرتبہ کلمۂ شہادت پڑھ کر اسلام کے جھنڈے کے نیچے آجاتاتھا، بڑی سے بڑی قوت بھی اُس کوروک نہ سکتی