فضائل اعمال ۔ یونیکوڈ ۔ غیر موافق للمطبوع |
|
سے پوچھا، یہ ہر سوال کے جواب میں ’’مجھے معلوم نہیں‘‘ کہتے رہے، جب دس کے دس پوچھ چکے تو اُنھوں نے سب سے پہلے پوچھنے والے کومُخاطَب کرکے فرمایا کہ: تم نے سب سے پہلی حدیث یہ پوچھی تھی، تم نے اِس طرح بیان کی، یہ غلط ہے اور صحیح اِس طرح ہے، دوسری حدیث یہ پوچھی تھی، وہ اِس طرح تم نے بیان کی، یہ غلط ہے اور صحیح اِس طرح ہے؛ غرض اِسی طرح سو کی سو حدیثیں ترتیب وار بیان فرما دِیں، کہ ہر حدیث کواوَّل اُس طرح پڑھتے جس طرح امتحان لینے والے نے پڑھا تھا، پھر کہتے کہ: یہ غلط ہے اور صحیح اِس طرح ہے۔ امام مسلمؒ نے چودہ برس کی عمر میں حدیث پڑھناشروع کی تھی، اِسی میں اخیر تک مشغول رہے۔ خود کہتے ہیں کہ: مَیں نے تین لاکھ احادیث میں سے چھانٹ کر ’’مسلم شریف‘‘ تصنیف کی ہے، جس میں بارہ ہزار(۱۲۰۰۰) حدیثیں ہیں۔ امام ابوداؤدؒ کہتے ہیں کہ: مَیں نے پانچ لاکھ احادیث سنی ہیں، جن میں سے اِنتِخاب کرکے ’’سُننِ ابوداؤد شریف‘‘ تصنیف کی ہے، جس میں چارہزارآٹھ سو(۴۸۰۰) حدیثیں ہیں۔ یوسف مِزِّیؒ مشہور محدث ہیں، اَسمائے رِجال کے امام ہیں، اوَّل اپنے شہر میں فِقہ اور حدیث حاصل کیا، اِس کے بعد مکۂ مکرمہ، مدینۂ منوَّرہ، حَلَب، حُمات، بَعلبک وغیرہ کاسفرکیا، بہت سی کتابیں اپنی قلم سے لکھیں: ’’تہذیبُ الکمال‘‘ دوسو جلدوں میں تصنیف کی، اور’’کتابُ الاطراف‘‘ اَسِّی جلدوں سے زیادہ ہیں۔ اِن کی عادتِ شریفہ تھی کہ اکثر چپ رہتے، بات کسی سے بہت ہی کم کرتے تھے، اکثر اوقات کتابیں دیکھنے میں مشغول رہتے تھے، حاسدوں کی عَداوَت کاشکار بھی بنے؛ مگر اِنتقام نہیں لیا۔ اِن حضرات کے حالات کااِحاطہ دُشوار ہے، بڑی بڑی کتابیں اِن کے حالات اور جاں فَشانیوں کااِحاطہ نہیں کرسکیں۔ یہاں نمونے کے طور پر چند حضرات کے دو چار واقعات کا ذکر اِس لیے کیا؛ تاکہ یہ معلوم ہو کہ وہ علمِ حدیث جو آج ساڑھے تیرہ سو برس تک نہایت آب وتاب سے باقی ہے، وہ کس محنت اورجاںفَشانی سے باقی رکھاگیا ہے؟ اور جو لوگ علم حاصل کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں، اپنے آپ کو’’طالبِ علم‘‘ کہتے ہیں، وہ کتنی محنت اور مَشقَّت اِس کے لیے گَوارا کرتے ہیں؟ اگر ہم لوگ یہ چاہیں کہ ہم اپنے عیش وعِشرت، راحت وآرام، سَیر وتفریح اور دنیا کے دوسرے مَشاغِل میں لگے رہیں، اور حضورﷺکے پاک کلام کایہ شُیوع اِسی طرح باقی رہے، تو ’’اِیں خَیال است ومَحال است وجنوں‘‘ کے سِوا اَور کیا ہوسکتا ہے!۔