فضائل اعمال ۔ یونیکوڈ ۔ غیر موافق للمطبوع |
|
لکھنے کا معمول تھا۔ دَرس کایہ عالَم تھا کہ مجلس میں بعض مرتبہ ایک لاکھ سے زیادہ شاگردوں کااندازہ کیا گیا؛ اُمَرا، وُزَرا، سَلاطِین تک مجلسِ دَرس میںحاضرہوتے تھے۔ ابنِ جَوزیؒ خود کہتے ہیں کہ: ایک لاکھ آدمی مجھ سے بیعت ہوئے، اور بیس ہزارمیرے ہاتھ پرمسلمان ہوئے ہیں۔ اِس سب کے باوجود شیعوں کازور تھا اِس وجہ سے تکلیفیں بھی اُٹھانا پڑیں۔ (تذکرۃ) احادیث لکھنے کے وقت میں قلموں کا تَراشہ جمع کرتے رہتے تھے، مرتے وقت وَصِیَّت کی تھی کہ: میرے نہانے کا پانی اِسی سے گرم کیاجائے، کہتے ہیں کہ: صرف غُسلِ مَیِّت کے پانی گرم کرنے ہی کے لیے کافی نہ تھا؛ بلکہ گرم کرنے کے بعدبچ بھی گیاتھا۔ یحییٰ بن مَعینؒ -حدیث کے مشہوراستاذ ہیں- کہتے ہیں کہ: مَیں نے اپنے اِن ہاتھوں سے دس لاکھ حدیثیں لکھی ہیں۔ ابنِ جریرؒ طَبری مشہور مؤرِّخ ہیں، صحابہ اورتابعین کے احوال کے ماہر، چالیس سال تک ہمیشہ چالیس وَرق روزانہ لکھنے کا معمول تھا، اِن کے انتقال پر شاگردوں نے روزانہ کی لکھائی کاحساب لگایا تو بُلوغ کے بعدسے مرنے تک چودہ ورق روزانہ کااَوسط نکلا۔اِن کی تاریخ مشہور ہے، عام طورسے ملتی ہے، جب اُس کی تصنیف کاارادہ ظاہر کیا تولوگوں سے پوچھا کہ: تمام عالَم کی تاریخ سے توتم لوگ بہت خوش ہوںگے؟ لوگوں نے پوچھا کہ: اندازاً کتنی بڑی ہوگی؟ کہنے لگے کہ: تقریباً تیس ہزار وَرق پر آئے گی، لوگوں نے کہا: اُس کے پورا کرنے سے پہلے عمریں فنا ہوجائیںگی، کہنے لگے کہ: إِنَّالِلّٰہِ! ہِمَّتیں پَست ہوگئیں، اِس کے بعد مختصرکیا اور تقریباً تین ہزار ورق پر لکھی۔ اِسی طرح اُن کی تفسیر کابھی قِصَّہ ہوا، وہ بھی مشہور ہے اورعام طورسے ملتی ہے۔ دارِقُطنیؒ -حدیث کے مشہور مُصنِّف ہیں- حدیث حاصل کرنے کے لیے بغداد، بصرہ، کوفہ، واسِط،مِصر اورشام کاسفر کیا۔ ایک مرتبہ استاذ کی مجلس میں بیٹھے تھے، استاذ پڑھ رہے تھے اور یہ کوئی کتاب نقل کررہے تھے، ایک ساتھی نے اعتراض کیا کہ: تم دوسری طرف مُتوجَّہ ہو، کہنے لگے کہ: میری اور تمھاری توجُّہ میں فرق ہے، بتاؤ! اُستاذ نے اب تک کتنی حدیثیں سنائیں؟ وہ سوچنے لگے، دارِقطنیؒ نے کہا کہ: شیخ نے اَٹھارہ حدیثیں سنائی ہیں، پہلی یہ تھی، دوسری یہ تھی، اِسی طرح ترتیب وار سب کی سب مع سند کے سنادیں۔ حافظ اَثرَمؒ- ایک مُحدِّث ہیں- احادیث کے یاد کرنے میں بڑے مَشَّاق تھے، ایک مرتبہ حج کو تشریف لے گئے، وہاں’’خُراسان‘‘ کے دو بڑے استاذِ حدیث آئے ہوئے تھے، اور حرم شریف میں دونوں علاحدہ علاحدہ دَرس دے رہے تھے، ہر ایک کے پاس پڑھنے والوں کاایک بڑا مجمع موجود تھا، یہ دونو ںکے درمیان میں بیٹھ گئے اور دونوں کی حدیثیں ایک ہی وقت میں لکھ ڈالیں۔ عبداللہ بن مبارکؒ مشہور محدث ہیں، حدیث حاصل کرنے میں اُن کی محنتیں