فضائل اعمال ۔ یونیکوڈ ۔ غیر موافق للمطبوع |
|
گِراں: سخت ناگوار۔ تجویز: مُتعَیَّن۔ تردُّد:فکر۔ لَلکار: پکار۔ گھُمسان کی لڑائی: بھاری لڑائی۔ قِتال: لڑنا۔ اِشتیاق: چاہت۔ ہَلّے: حملے۔ حضورِاقدس ﷺ نے مختلف بادشاہوں کے پاس تبلیغی دعوت نامے اِرسال فرمائے تھے، اُن میں ایک خط حضرت حارث بن عُمیراَزدی صکے ہاتھ بُصریٰ کے بادشاہ کے پاس بھی بھیجاتھا، جب یہ ’’مُوتہ‘‘ پہنچے تو شُرحبِیل غَسَّانی نے- جو قَیصَر کے حُکَّام میں سے ایک شخص تھا- اُن کو قتل کردیا، قاصدوں کا قتل کسی کے نزدیک بھی پسندیدہ نہیں، حضورﷺ کویہ بات بہت گِراں ہوئی اور آپ ﷺ نے تین ہزار کا ایک لشکر تجویز فرماکر حضرت زیدبن حارثہ صکو اُن پر امیر مقرر فرمایا، اور ارشاد فرمایا کہ: ’’اگریہ شہید ہوجائیں توجعفربن اَبی طالب ص امیربنائے جائیں، وہ بھی شہید ہوجائیں توعبداللہ بن رَواحہ ص امیرہوں، وہ بھی شہیدہوجائیں توپھرمسلمان جس کودل چاہے امیر بنالیں‘‘، ایک یہودی اِس گفتگو کو سن رہاتھا، اُس نے کہا: یہ تینوں توضرور شہید ہوںگے، پہلے انبیاء کی اِس قسم کے کلام کایہی مطلب ہوتا ہے، حضورِاقدس ﷺ نے ایک سفیدجھنڈا بناکر حضرت زید ص کے حوالے فرمایا، اور خود مع ایک جماعت کے اِن حضرات کو رُخصت فرمانے تشریف لے گئے۔ شہر کے باہر جب پہنچانے والے واپس آنے لگے تواِن مجاہدین کے لیے دعا کی کہ: حق تَعَالیٰ شَانُہٗ تم کو سلامتی کے ساتھ کامیابی کے ساتھ واپس لائے، اور ہرقِسم کی بُرائی سے محفوظ رکھے، حضرت عبداللہ بن رواحہ صنے اِس کے جواب میں تین شعر پڑھے جن کامطلب یہ تھاکہ: ’’مَیں تواپنے رب سے گناہوں کی مغفرت چاہتاہوں، اور یہ چاہتا ہوں کہ ایک ایسی تلوار ہو جس سے میرے خون کے فُوارے چھوٹنے لگیں، یا ایسا بَرچھا ہو جو آنتوں اور کلیجے کوچیرتا ہُوا نکل جائے، اور جب لوگ میری قبر پر گزرے تویہ کہیں کہ: اللہ تجھ غازی کو رشید اور کامیاب کرے، واقعی تُو تو رشید اور کامیاب تھا‘‘۔ اِس کے بعدیہ حضرات روانہ ہوگئے، شُرحبِیل کو بھی اِن کی روانگی کاعلم ہوا، وہ ایک لاکھ فوج کے ساتھ مقابلے کے لیے تیار ہوا، یہ حضرات کچھ آگے چلے تو معلوم ہوا کہ خود ’’ہِرقل‘‘ -روم کابادشاہ- ایک لاکھ فوج ساتھ لیے ہوئے مقابلے کے لیے آرہا ہے، اِن حضرات کو اِس خبرسے تردُّد ہوا کہ اِتنی بڑی جَمعِیَّت کامقابلہ کیاجاوے یاحضورِاقدس ﷺ کو اِطِّلاع دی جاوے؟ حضرت عبداللہ بن رَواحہ ص نے لَلکار کرفرمایا: ’’اے لوگو! تم کس بات سے گھبرارہے ہو؟ تم کس چیزکے ارادے سے نکلے ہو؟ تمھارا مقصود شہید ہوجانا ہے، ہم لوگ کبھی بھی قوت اور آدمیوں کی کثرت کے زور پر نہیں لڑے، ہم صرف اُس دین کی وجہ سے لڑے ہیں جس کی وجہ سے اللہ نے ہمیں اِکرام نصیب فرمایا ہے، آگے بڑھو، دو کامیابیوں میں سے