فضائل اعمال ۔ یونیکوڈ ۔ غیر موافق للمطبوع |
|
بھی آئے۔ اِس رسالہ ’’فضائلِ درود‘‘ کے لکھنے کے زمانے میں ایک رات خواب میںیہ دیکھا کہ: مجھے یہ حکم دیاجارہاہے کہ، اِس رسالہ میںقصیدہ ضرور لکھیو؛ لیکن قصیدے کی تعیین نہیںمعلوم ہوسکتی؛ البتہ خود اِس ناکارہ کے ذہن میںخواب ہی میں یا جاگتے وقت دوخوابوں کے درمیان میں -اِس لیے کہ اُسی وقت دوبارہ بھی اِسی قِسم کا خواب دیکھا تھا- یہ خَیال آیا کہ، اِس کا مصداق مولانا جامی نَوَّرَ اللہُ مَرْقَدَہٗ کی وہ مشہور نعت ہے جو ’’یوسف زلیخا‘‘ کے شروع میںہے، جب اِس ناکارہ کی عمر تقریباً دس گیارہ سال کی تھی گنگوہ میں اپنے والد صاحبؒ سے یہ کتاب پڑھی تھی، اُسی وقت اُن کی زبانی اِس کے مُتعلِّق ایک قصہ بھی سنا تھا، اور وہ قصہ ہی خواب میں اُس کی طرف ذہن کے منتقل ہونے کا داعیہ بنا۔ قصہ یہ سُنا تھاکہ: مولانا جامی نَوَّرَ اللہُ مَرْقَدَہٗ وَأَعْلَی اللہُ مَرَاتِبَہٗ یہ نعت کہنے کے بعد جب ایک مرتبہ حج کے لیے تشریف لے گئے، تو اُن کا اردہ یہ تھاکہ، روضۂ اقدس کے پاس کھڑے ہوکر اِس نظم کو پڑھیںگے، جب حج کے بعد مدینۂ منوَّرہ کی حاضری کا ارادہ کیا، تو امیرِ مکہ نے خواب میںحضورِاقدس ﷺ کی زیارت کی، حضورِاقدس ﷺ نے خواب میں اُن کو یہ ارشاد فرمایا کہ: ’’اُس کو (جامی کو) مدینہ نہ آنے دیں‘‘، امیرِ مکہ نے ممانَعت کردی؛ مگر اُن پر جَذب وشوق اِس قدر غالب تھاکہ یہ چھپ کر مدینۂ منوَّرہ کی طرف چل دیے، امیرِ مکہ نے دوبارہ خواب دیکھا، حضورﷺ نے فرمایا: ’’وہ آرہاہے، اُس کو یہاں نہ آنے دو‘‘، امیرنے دوآدمی دوڑائے اور اُن کو راستے سے پکڑواکر بُلایا، اُن پر سختی کی، اور جیل خانے میں ڈال دیا، اِس پر امیرکو تیسری مرتبہ حضورِاقدس ﷺ کی زیارت ہوئی، حضورﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’یہ کوئی مُجرم نہیں؛ بلکہ اِس نے کچھ اشعار کہے ہیں جن کو یہاں آکر میری قبر پر کھڑے ہوکر پڑھنے کا ارادہ کررہاہے، اگر ایساہوا تو قبر سے مصافحے کے لیے ہاتھ نکلے گا جس میں فتنہ ہوگا‘‘، اِس پر اُن کو جیل سے نکالا گیا، اور بہت اعزاز واکرام کیاگیا۔ اِس قصے کے سننے میں یا یاد میں تو اِس ناکارہ کو تردُّد نہیں؛ لیکن اِس وقت اپنے ضعفِ بینائی اور اَمراض کی وجہ سے مُراجَعتِ کُتب سے معذوری ہے، ناظرین میں سے کسی کو کسی کتاب میں اِس کا حوالہ اِس ناکارہ کی زندگی میںملے تو اِس ناکارہ کو بھی مُطَّلع فرماکر ممنون فرمائیں، اور مرنے کے بعد اگر ملے تو حاشیہ اِضافہ فرمادیں۔ اِس قصے ہی کی وجہ سے اِس ناکارہ کا خَیال اِس نعت کی طرف گیا تھا، اور اب تک یہی ذہن میںہے اور اِس میںکوئی اِستبعاد نہیں۔ سیداحمد رفاعی مشہور بزرگ اکابرِ صوفیا میںسے ہیں، اِن کا قصہ مشہور ہے کہ: جب ۵۵۵ھ میں وہ زیارت کے لیے حاضر ہوئے، اور قبرِ اطہر کے قریب کھڑے ہوکر دوشعر پڑھے تو دستِ مبارک باہر نکلا، اور اُنھوںنے اُس کو