فضائل اعمال ۔ یونیکوڈ ۔ غیر موافق للمطبوع |
|
فرمادیں تو تیرے لیے سُرخ اُونٹوں سے (جو عمدہ مال شمار ہوتاہے) بہتر اور اَفضل ہے۔ رمَضان المُبارک کا مہینہ مسلمانوں کے لیے حق تَعَالیٰ شَانُہٗ کا بہت ہی بڑا انعام ہے؛مگر جب ہی کہ اِس اِنعام کی قدر بھی کی جائے؛ ورنہ ہم سے محروموں کے لیے ایک مہینے تک ’’رَمَضان، رَمَضان‘‘ چِلاّئے جانے کے سِوا کچھ بھی نہیں۔ ایک حدیث میںہے کہ: ’’اگر لوگوں کو یہ معلوم ہوجائے کہ رمَضان کیا چیز ہے؟ تو میری اُمَّت یہ تمنا کرے کہ سارا سال رَمَضان ہی ہوجائے‘‘۔ ہر شخص سمجھتاہے کہ سال بھر کے روزے رکھنے کارے دَارَد؛ مگر رمَضان المُبارک کے ثواب کے مُقابلے میںحضورﷺ کا ارشاد ہے کہ: لوگ اِس کی تَمنا کرنے لگیں۔ ایک حدیث میںارشاد ہے کہ: ’’رمَضان المبارک کے روزے اورہرمہینے میںتین روزے رکھنا دِل کی کھوٹ اور وَساوِس کو دُورکرتاہے‘‘۔ آخر کوئی تو بات ہے کہ صحابۂ کرامث رمَضان کے مہینے میں جہاد کے سفر میں باوجود نبیٔ کریم ﷺ کے باربار افطار کی اجازت فرمادینے کے روزے کا اہتمام فرماتے، حتیّٰ کہ حضور ﷺ کوحُکماً منع فرمانا پڑا۔ ’’مُسلم شریف‘‘ کی ایک حدیث میںہے کہ: صحابۂ کرام ثایک غزوے کے سفر میں ایک منزل پر اُترے، گرمی نہایت سخت تھی، اور غُربَت کی وجہ سے اِس قدر کپڑا بھی سب کے پاس نہ تھا کہ دُھوپ کی گرمی سے بَچاؤ کرلیں، بہت سے لوگ اپنے ہاتھ سے آفتاب کی شُعاع سے بچتے تھے، اِس حالت میں بھی بہت سے روزے دار تھے جن سے کھڑے ہوسکنے کا تحمُّل نہ ہوا اور گِر گئے۔ صحابۂ کرام ثکی ایک جماعت گویا ہمیشہ تمام سال روزے دار ہی رہتی تھی۔ نبیٔ کریم ﷺسے سینکڑوں روایات میں مختلف اَنواع کے فضائل نقل کیے گئے، جن کا اِحاطہ تو مجھ جیسے ناکارہ کے اِمکان سے خارِج ہے ہی؛ لیکن میرا یہ بھی خَیال ہے کہ، اگر اِن کو کچھ تفصیل سے لکھوں تو دیکھنے والے اُکتاجائیں گے، کہ اِس زمانے میں دِینی اُمور میںجس قدر بے اِلتِفاتی کی جارہی ہے وہ محتاجِ بیان نہیں، علم وعمل دونوں میںجس قدر بے پرواہی دِین کے بارے میں بڑھتی جارہی ہے وہ ہرشخص اپنی ہی حالت میں غور کرنے سے معلوم کرسکتاہے؛ اِس لیے اکیس(۲۱) احادیث پر اِکتِفا کرتاہوں، اور اُن کو تین فصلوں پرمُنقسِم کرتاہوں: فصلِ اول: رمَضان المبارک کے فضائل میں، جس میں دَس احادیث مذکور ہیں۔ دوسری فصل: شبِ قدر کے بیان میں، جس میں سات حدیثیںہیں۔