فضائل اعمال ۔ یونیکوڈ ۔ غیر موافق للمطبوع |
|
مسلمان سے گذارش ہے کہ: اِس وقت دِین کا اِنحِطاط جس قدر روز افزُوں ہے، دِین کے اوپر جس طرح کُفَّارکی طرف سے نہیں خود مسلمانوں کی طرف سے حملے ہورہے ہیں، فرائض وواجبات پر عمل عام مسلمانوں سے نہیں؛ بلکہ خاص اور اخصُّ الخواص مسلمانوں سے متروک ہوتا جارہا ہے، نماز، روزے کے چھوڑ دینے کا کیا ذکر؟ جب کہ لاکھوں آدمی کھلے ہوئے شِرک وکُفر میں مبتلا ہیں، اور غضب یہ کہ اُن کو شرک اور کفر نہیں سمجھتے، مُحرَّمات اور فِسق وفُجور کا شُیوع جس قدر صاف اور واضح طَریق سے بڑھتا جارہا ہے، اور دِین کے ساتھ لاپرواہی؛ بلکہ اِستِخفاف و اِستِہزاء جتنا عام ہوتا جارہا ہے وہ کسی فردِ بشر سے مَخفِی نہیں، اِسی وجہ سے خاص عُلَما؛ بلکہ عام عُلَمامیں بھی لوگوں سے یکسوئی اور وَحشَت بڑھتی جارہی ہے، جس کا لازمی اثر یہ ہورہا ہے کہ دِین اور دِینیات سے اَجنَبِیَّت میں روز بہ روز اِضافہ ہوتا جارہا ہے، عوام اپنے کو معذور کہتے ہیں، کہ اُن کو بتلانے والا کوئی نہیں، اور عُلَما اپنے کو معذور سمجھتے ہیں، کہ اُن کی سننے والا کوئی نہیں؛ لیکن خدائے قُدُّوس کے یہاں نہ عوام کا یہ عذر کافی کہ کسی نے بتلایا نہ تھا؛اِس لیے کہ دِینی اُمور کا معلوم کرنا، تحقیق کرنا ہر شخص کا اپنا فرض ہے، قانون سے ناواقفیت کا عذر کسی حکومت میں بھی معتبر نہیں، اَحکمُ الحاکِمین کے یہاں یہ پوچ عذر کیسے چل سکتا ہے؟ یہ تو ’’عذرِ گناہ بد تر از گناہ‘‘ کا مصداق ہے، اِسی طرح نہ عُلَما کے لیے یہ جواب مَوزُوں کہ، کوئی سننے والا نہیں، جن اسلاف کی نِیابَت کے آپ حضرات دعویدار ہیں اُنھوں نے کیا کچھ تبلیغ کی خاطر برداشت نہیں فرمایا! کیا پتھر نہیں کھائے؟ گالیاں نہیں کھائیں؟ مصیبتیں نہیں جھیلِیں ؟؛لیکن ہر نوع کی تکالیف برداشت فرمانے کے بعد اپنی تبلیغی ذمَّے داریوں کا اِحساس فرماکر لوگوں تک دِین پہنچایا، ہر سخت سے سخت مُزاحَمت کے باوجود نہایت شفقت سے اِسلام واَحکامِ اسلام کی اِشاعت کی۔ عام طور پر مسلمانوں نے تبلیغ کو عُلَما کے ساتھ مخصوص سمجھ رکھا ہے؛ حالاں کہ یہ صحیح نہیں ہے؛ بلکہ ہر وہ شخص جس کے سامنے کوئی مُنکَر ہورہا ہو اور وہ اُس کے روکنے پر قادر ہو، یا اُس کو روکنے کے اسباب پیدا کرسکتا ہو، اُس کے ذمَّے واجب ہے کہ اُس کو روکے، اور اگر بہ فرضِ مَحال مان بھی لیا جاوے کہ یہ عُلَما کا کام ہے، تب بھی جب کہ وہ اپنی کوتاہی سے یا کسی مجبوری سے اِس حق کو پورا نہیں کررہے ہیں، یا اُن سے پورا نہیں ہورہا ہے، تو ضروری ہے کہ ہر شخص کے ذمَّے یہ فریضہ عائد ہو، قرآن وحدیث میں جس قدر اہتمام سے تبلیغ اور اَمر بالمعروف وَنَہِی عن المُنکَر کو ارشاد فرمایا گیا ہے وہ اُن آیات واحادیث سے ظاہر ہے جو آئندہ فصلوں میں آرہی ہیں، ایسی حالت میں صرف عُلَما کے ذمَّے رکھ کر یا اُن کی کوتاہی بتاکر کوئی شخص بَریُ الذِّمہ نہیں ہوسکتا؛ اِس لیے میری علَی العُموم درخواست ہے کہ: ہر مسلمان کو اِس وقت