فضائل اعمال ۔ یونیکوڈ ۔ غیر موافق للمطبوع |
|
مرتبہ چُپڑ دیا، توحضورﷺ خودبھی اُس کومزے لے کر نوش فرمارہے تھے، اور دوسروں کوبھی کھلاتے تھے۔ فرمایا: کون سا بسترہ عمدہ ہوتا تھا جو تیرے یہاں بچھاتے تھے؟ عرض کیا: ایک موٹا سا کپڑا تھا، گرمی میں اُس کوچوہراکرکے بچھالیتے تھے، اور سردی میںآدھے کوبچھا لیتے اور آدھے کو اوڑھ لیتے، فرمایا کہ: حفصہ! اُن لوگوں تک یہ بات پہنچادے کہ: حضورﷺ نے اپنے طرزِعمل سے ایک اندازہ مقرَّر فرمادیا، اوراُمید (آخرت) پر کِفایت فرمائی، مَیں بھی حضورﷺکا اِتِّباع کروںگا، میری مثال اورمیرے دو ساتھی: حضورِاقدس ﷺاور حضرت ابوبکرصدیقص کی مثال اُن تین شخصوں کی سی ہے جو ایک راستے پرچلے، پہلا شخص ایک توشہ لے کرچلا اورمقصد کو پہنچ گیا، دوسرے نے بھی پہلے کا اِتباع کیا اور اُسی کے طریقے پرچلا، وہ بھی پہلے کے پاس پہنچ گیا، پھر تیسرے شخص نے چلنا شروع کیا، اگروہ اُن دونوں کے طریقے پرچلے گا تواُن کے ساتھ مل جائے گا، اور اگر اُن کے طریقے کے خلاف چلے گا توکبھی بھی اُن کے ساتھ نہیں مِل سکے گا۔ (اَشہُرالمشاہیر، ۲؍۴۲۶ تا ۴۲۸) فائدہ:یہ اُس شخص کاحال ہے جس سے دنیا کے بادشاہ ڈرتے تھے، کانپتے تھے، کہ کس قدر زاہِدانہ زندگی کے ساتھ عمرگزار دی۔ ایک مرتبہ آپ صخطبہ پڑھ رہے تھے، اورآپص کی لنگی میں بارہ پیوندتھے جن میں سے ایک چمڑے کابھی تھا۔ ایک مرتبہ جمعہ کی نمازکے لیے تشریف لانے میں دیر ہوئی، توتشریف لاکرمعذِرت فرمائی، کہ مجھے اپنے کپڑے گِیروی: گہرا گلابی۔ وَفد: جماعت۔ تَلچَھٹ: جو چیز تہہ میںبیٹھ جائے۔ نوش:کھانا۔ چوہرا: چارتہہ۔ معذِرت: عذر۔ دھونے میں دیرہوئی، اور اِن کپڑوں کے عِلاوہ اَور تھے نہیں۔(اشہر) ایک مرتبہ حضرت عمر صکھانانوش فرمارہے تھے، غلام نے آکر عرض کیاکہ: عُتبہ بن اَبی فَرقَدص حاضر ہوئے ہیں، آپ نے اندر آنے کی اجازت فرمائی اور کھانے کی تواضع فرمائی، وہ شریک ہوگئے، تو ایسا موٹا کھانا تھاکہ نِگلا نہ گیا، اُنھوں نے عرض کیا کہ: چھَنے ہوئے آٹے کا کھانا بھی تو ہوسکتا تھا، آپص نے فرمایا: کیا سب مسلمان مَیدہ کھا سکتے ہیں؟ عرض کیا کہ: سب تو نہیں کھاسکتے، فرمایا کہ: افسوس! تم یہ چاہتے ہوکہ مَیں اپنی ساری لَذَّتیں دنیا ہی میں ختم کردوں!۔ (اُسدالغابہ، ۴؍۶۱) اِس قِسم کے سینکڑوں ہزاروں نہیں؛بلکہ لاکھوںواقعات اُن حضراتِ کرام کے ہیں، اُن کا اتِّباع نہ اب ہوسکتا ہے، نہ ہرشخص کوکرناچاہیے،کہ قُویٰ ضعیف