فضائل اعمال ۔ یونیکوڈ ۔ غیر موافق للمطبوع |
|
عمرص ملے، پوچھا: کہاں چلے؟ فرمایا: بازار جا رہا ہوں، حضرت عمرصنے عرض کیا کہ: اگرتم تجارت میں مشغول ہوگئے توخِلافت کے کام کاکیا ہوگا؟ فرمایا: پھر اَہل وعَیال کو کہاں سے کھلاؤں؟ عرض کیا کہ: ابوعُبیدہص جن کو حضور ﷺنے اَمین ہونے کالَقب دیا ہے، اُن کے پاس چلیں، وہ آپ کے لیے بیتُ المال سے کچھ مقرَّر کردیںگے، دونوں حضرات اُن کے پاس تشریف توَنگری: مالداری۔ تایا: باپ کے بڑے بھائی۔ حَسبِ معمول: معمول کے مطابق۔ فروخت: بیچنا۔ اَمین: امانت دار۔ لے گئے، تواُنھوں نے ایک مُہاجِری کو جو اَوسطاً ملتا تھا ،نہ کم نہ زیادہ،وہ مقرَّر فرمادیا۔ ایک مرتبہ بیوی نے درخواست کی کہ: کوئی میٹھی چیزکھانے کو دِل چاہتاہے، حضرت ابوبکرصدیق ص نے فرمایا کہ: میرے پاس تو دَام نہیں کہ خریدوں، اَہلیہ نے عرض کیا کہ: ہم اپنے روز کے کھانے میں سے تھوڑا تھوڑا بچا لیا کریں، کچھ دنوں میں اِتنی مقدار ہوجائے گی، آپ ص نے اجازت فرما دی، اَہلیہ نے کئی روز میں کچھ تھوڑے سے پیسے جمع کیے، آپ ص نے فرمایا کہ: تجربے سے یہ معلوم ہواکہ اِتنی مقدارہمیں بیتُ المال سے زیادہ ملتی ہے؛اِس لیے جو اَہلیہ نے جمع کیاتھا وہ بھی بیتُ المال میں جمع فرمادیا، اورآئندہ کے لیے اُتنی مقدارجتنا اِنھوں نے روزانہ جمع کیاتھا، اپنی تنخواہ میں سے کم کردیا۔ فائدہ: اِتنے بڑے خلیفہ اوربادشاہ پہلے سے اپنی تجارت بھی کرتے تھے، اوروہ ضروریات کے لیے کافی بھی تھی، جیسا کہ اُس اعلان سے معلوم ہوتا ہے جو’’بخاری‘‘ میں حضرت عائشہ رَضِيَ اللہُ عَنْہَا سے مَروِی ہے، کہ جب حضرت ابوبکرص خلیفہ بنائے گئے توآپص نے فرمایاکہ: ’’میری قوم کویہ بات معلوم ہے کہ میرا پیشۂ تجارت میرے اَہل وعَیال کے خرچ کو ناکافی نہیں تھا؛ لیکن اب خلافت کی وجہ سے مسلمانوں کے کاروبار میں مشغولی ہے؛ اِس لیے بیتُ المال سے میرے اَہل وعَیال کا کھانا مقرَّر ہوگا‘‘۔ اِس کے باوجود حضرت ابوبکرص کا وِصال ہونے لگا، تو حضرت عائشہ رَضِيَ اللہُ عَنْہَا کو وَصِیَّت فرمائی کہ: میری ضرورتوں میں جوچیزیں بیتُ المال کی ہیں وہ میرے بعد آنے والے خلیفہ کے حوالے کر دی جائیں۔ حضرت اَنس صفرماتے ہیں کہ: آپ کے پاس کوئی دینار یادرہم نہیں تھا، ایک اونٹنی دودھ کی، ایک پیالہ، ایک خادم تھا۔ بعض روایات میں ایک اوڑھنا، ایک بچھونا بھی آیا ہے۔ یہ اَشیاء حضرت عمرصکے پاس جب نِیابت میں