فضائل اعمال ۔ یونیکوڈ ۔ غیر موافق للمطبوع |
ثَوبِہٖ فَاجتَذَبَہٗ، وَقَالَ: أَلَا أَریٰ عَلَیكَ ثِیَابَ مَن لَایَعقِلُ؟ ثُمَّ رَجَعَ رَسُولُ اللہِﷺ فَجَلَسَ، فَقَالَ: إِنَّ نُوحاً لَمَّا حَضَرَتْہُ الوَفَاۃُ دَعَا اِبنَیْہِ، فَقَالَ: إِنِّي قَاصٌّ عَلَیکُمَا الوَصِیَّۃَ، اٰمُرُکُمَا بِاثنَینِ وَأَنْهَاکُمَا عَن اِثنَینِ: أَنهٰکُمَا عَنِ الشِّركِ وَالکِبَرِ، وَاٰمُرُکُمَا بِلَا إِلٰہَ إِلَّا اللہُ؛ فَإِنَّ السَّمٰوَاتِ وَالأَرضَ وَمَا فِیهِمَا لَو وُضِعَتْ فِي کَفَّۃِ المِیزَانِ وَوُضِعَتْ لَا إِلٰہَ إِلَّا اللہُ فِي الکَفَّۃِ الأُخریٰ کَانَتْ أَرجَحَ مِنهُمَا، وَلَو أَنَّ السَّمٰوَاتِ وَالأَرضَ وَمَا فِیهِمَا کَانَتْ حَلَقَۃً فَوُضِعَتْ لَا إِلٰہَ إِلَّا اللہُ عَلَیهَا لَقَصَعَتْهُمَا، وَاٰمُرُکُمَا بِسُبحَانَ اللہِ وَبِحَمْدِہٖ؛ فَإِنَّهُمَا صَلَاۃُ کُلِّ شَيْئٍ، وَبِهِمَا یُرزَقُ کُلُّ شَيْئٍ. (أخرجہ الحاکم، وقال: صحیح الإسناد، ولم یخرجہ للصقعب ابن زهیر؛ فإنہ ثقۃ قلیل الحدیث. اھ وأقرہ علیہ الذهبي، وقال: الصقعب ثقۃ، ورواہ ابن عجلان عن زید بن أسلم مرسلا.اھ قلت: ورواہ أحمد في مسندہ بزیادۃ فیہ بطریق، وفي بعض منها: ’’فَإِنَّ السَّمٰوَاتِ السَّبعَ وَالأَرضِینَ السَّبعِ کُنَّ حَلْقَۃً مُبهَمَۃً قَصَمَتْهُنَّ لَا إِلٰہَ إِلَّا اللہُ‘‘، وذکرہ المنذري في الترغیب عن ابن عمر مختصرا، وفیہ: ’’لَوکَانَتْ حَلْقَۃً لَقَصَمَتْهُنَّ حَتّٰی تَخلُصَ إِلَی اللہِ‘‘، ثم قال: رواہ البزار، ورواتہ محتج بهم في الصحیح؛ إلاأن ابن إسحاق، وهو في النسائي عن صالح بن سعید رفعہ إلیٰ سلیمان بن یسار، إلیٰ رجل من الأنصار لم یسمہ، ورواہ الحاکم عن عبداللہ، وقال: صحیح الإسناد، ثم ذکر لفظہ. قلت: وحدیث سلیمان بن یسار یأتي في بیان التسبیح، وفي مجمع الزوائد: رواہ أحمد، ورواہ الطبراني بنحوہ، ورواہ البزار من حدیث ابن عمر، ورجال أحمد ثقات، وقال: في روایۃ البزار محمد بن إسحاق، وهو مدلس، وهو ثقۃ) ترجَمہ: حضورِ اقدس ﷺکی خدمت میں ایک شخص گاؤں کا رہنے والا آیا، جو ریشمی جُبَّہ پہن رہا تھا اور اُس کے کِناروں پر دِیباکی گوٹ تھی (صحابہ ثسے خِطاب کرکے) کہنے لگا کہ: تمھارے ساتھی(محمدﷺ)یہ چاہتے ہیں کہ: ہر چَرواہے (بکری چَرانے والے)اور چَرواہے زادے کو بڑھادیں، اور شَہ سوار اور شَہ سواروں کی اولاد کو گِرادیں، حضورﷺ ناراضگی سے اُٹھے اور اُس کے کپڑوں کو گِریبان سے پکڑ کر ذرا کھینچا، اور ارشاد فرمایا کہ: (تُوہی بتا)تُو بے وَقُوفوں کے سے کپڑے نہیں پہن رہا ہے؟ پھر اپنی جگہ واپس آکر تشریف فرماہوئے اور ارشاد فرمایا کہ: حضرت نوح عَلیٰ نَبِیِّنَا وَعَلَیہِ الصَّلَاۃُ وَالسَّلَامُ کا جب اِنتِقال ہونے لگا تو اپنے دونوں صاحب زادوں کوبُلایا، اور ارشاد فرمایا کہ: مَیں تمھیں (آخری)وَصیَّت کرتا ہوں، جس میں دو چیزوں سے روکتا ہوں اور دو چیزوں کا حکم کرتاہوں، جن سے روکتا ہوں: ایک شِرک ہے، دوسرا تکبُّر؛ اور جن چیزوں کا حکم کرتا ہوں: ایک لَا إِلٰہَ إِلَّا اللہُ ہے، کہ تمام آسمان وزمین اور جو کچھ اُن میں ہے اگر سب ایک پلڑے میں رکھ دیاجائے، اور دوسرے میں اِخلاص سے کہا ہوا لَا إِلٰہَ إِلَّا اللہُ رکھ دیا جائے تو وہی پلڑا جھک جائے گا، اور اگر تمام آسمان وزمین اور جو کچھ اُن میں ہے ایک حلقہ بناکر اِس پاک کلمے کو اُس پر رکھ دیا جاوے تو وہ وزن سے ٹوٹ جائے، اور دوسری چیز جس کا حکم کرتا ہوں وہ سُبحَانَ اللہِ وَبِحَمدِہٖ ہے، کہ یہ دولفظ ہرمخلوق کی نماز ہیں، اور اُنھِیں کی برکت سے ہرچیز کو رِزق عطا کیاجاتاہے۔ دِیبا: ایک قِسم کا ریشمی کپڑا۔ گوٹ: کنارہ۔ سَعی: کوشش۔ فائدہ: حضورِاقدس ﷺکا کپڑوں کے متعلِّق اِرشاد فرمانے کا مطلب یہ ہے کہ، ظاہر سے باطن پر اِستِدلال کیاجاتا ہے، جس شخص کاظاہرِ حال خراب ہے اُس کے باطن کا حال بھی بہ ظاہر ویسا ہی ہوگا؛ اِس لیے ظاہر کوبہتر رکھنے کی سَعی کی جاتی ہے کہ باطن اُس کے تابع ہوتا ہے؛ اِسی لیے صوفیائے کرام ظاہری طَہارت: وُضو وغیرہ کا اِہتِمام کراتے ہیں؛ تاکہ باطن کی طَہارت حاصل ہوجائے۔ جو لوگ یہ کہہ دیتے ہیں: ’’اَجی! باطن اچھا ہونا چاہیے، ظاہر چاہے کیسا ہی ہو‘‘ صحیح نہیں، باطن کا اچھا ہونا مُستَقِل مقصود ہے اور ظاہر کابہتر ہونا