فضائل اعمال ۔ یونیکوڈ ۔ غیر موافق للمطبوع |
|
کے لیے مغفرت اور رحمت کی دعا کرتے رہتے ہیں، اور جب تک آدمی نماز کے انتظار میں رہتا ہے وہ نماز کا ثواب پاتا رہتا ہے۔ تحریر: لکھنا۔ شُروحِ حدیث: حدیث کی شرحیں۔ محمول: گمان۔ سِرِّی: آہستہ قرأت والی۔ جَہری: زور سے قرأت والی۔ شُرَّاح: شرح لکھنے والے عُلَما۔ قرینِ قِیاس: عقل کے موافق۔ حَسنات: نیکیوں۔ اِضافہ: زیادتی۔ مَعصوم: بے گناہ۔ فائدہ: پہلی حدیث میں ستائیس درجے کی زیادتی بتلائی گئی تھی اوراِس حدیث میں پچیس درجے کی، اِن دونوں حدیثوں میں جو اِختلاف ہوا ہے عُلما نے اِس کے بہت سے جوابات تحریر فرمائے ہیں جو شُروحِ حدیث میں مذکور ہیں، مِن جُملہ اُن کے یہ ہے کہ:یہ نمازیوں کے حال کے اختلاف کی وجہ سے ہے، کہ بعضوں کوپچیس درجے کی زیادتی ہوتی ہے اور بعضوں کو اخلاص کی وجہ سے ستائیس کی ہوجاتی ہے۔ بعض عُلَما نے نماز کے اِختلاف پر محمول فرمایا ہے کہ، سِرِّی نمازوں میں پچیس ہے اور جَہری میں ستائیس ہے۔ بعض نے ستائیس عشاء اورصبح کے لیے بتایا ہے -کہ اِن دونوں نمازوں میں جانا مشکل معلوم ہوتا ہے- اورپچیس باقی نمازوں میں۔ بعض شُرَّاح نے لکھا ہے کہ: اِس اُمَّت پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے انعامات کی بارش بڑھتی ہی چلی گئی -جیسا کہ اَوربھی بہت سی جگہ اِس کا ظہور ہے-؛ اِس لیے اوَّل پچیس درجہ تھا، بعد میں ستائیس ہوگیا۔ بعض شُرَّاح نے ایک عجیب بات لکھی ہے، وہ کہتے ہیں کہ: اِس حدیث کاثواب پہلی حدیث سے بہت زیادہ ہے؛ اِس لیے کہ اِس حدیث میں یہ ارشاد نہیں کہ: وہ پچیس درجے کی زیادتی ہے؛ بلکہ یہ ارشاد ہے کہ: پچیس درجہ اَلمُضاعَف ہوتی ہے، جس کاترجَمہ دوچند اور دوگُناہوتا ہے، یعنی یہ کہ: پچیس مرتبہ تک دو گُنا اَجر ہوتا چلا جاتا ہے، اِس صورت میں جماعت کی ایک نماز کا ثواب تین کڑوڑ پینتیس لاکھ چوَّن ہزار چار سوبتِّیس (۴۳۲,۵۴,۳۵,۳) درجہ ہوا، حق تَعَالیٰ شَانُہٗ کی رحمت سے یہ ثواب کچھ بعید نہیں، اورجب نماز چھوڑنے کاگناہ ایک حَقبہ ہے -جوپہلے باب میں گذرا- تواُس کے پڑھنے کاثواب یہ ہوناقرینِ قِیاس بھی ہے۔ اِس کے بعد حضورﷺنے اِس طرف اشارہ فرمایا کہ: یہ توخود ہی غورکر لینے کی چیز ہے، کہ جماعت کی نمازمیں کس قدر اجروثواب اورکس کس طرح حَسنات کااِضافہ ہوتا چلا جاتا ہے، کہ جوشخص گھر سے وُضو کرکے محض نماز کی نیت سے مسجد میں جائے تواُس کے ہر ہر قدم پر ایک نیکی کااِضافہ اور ایک خطاکی مُعافی ہو تی چلی جاتی ہے۔ بنوسَلِمہ مدینہ طَیبہ میں ایک قبیلہ تھا، اُن کے مکانات مسجد سے دُورتھے، اُنھوں نے اِرادہ کیا کہ مسجد کے قریب ہی کہیں مُنتقِل ہوجائیں، حضور ﷺنے ارشاد فرمایا: ’’وہیں رہو، تمھارے مسجد تک آنے کاہرہر قدم لکھاجاتا ہے‘‘۔(مسلم، کتاب المساجد، باب فضل الصلاۃ المکتوبۃ فی جماعۃ، حدیث:۶۶۵ ۔۔۔۔)