فضائل اعمال ۔ یونیکوڈ ۔ غیر موافق للمطبوع |
|
تومعمولی سی بات ہے کہ گھر میں نہ پڑھے مسجد میں جاکر جماعت سے پڑھ لے، کہ نہ اِس میں کچھ مَشقَّت ہے نہ دِقَّت ، اور اِتنا بڑا ثواب حاصل ہوتا ہے؛ کون شخص ایسا ہوگا جس کو ایک روپئے کے ستائیس یا اٹھائیس روپئے ملتے ہوں اور وہ اُن کوچھوڑدے!؛ مگر دِین کی چیزوں میں اِتنے بڑے نفع سے بھی بے توجُّہی کی جاتی ہے، اِس کی وجہ اِس کے سِوا اَور کیا ہوسکتی ہے کہ ہم لوگوں کو دِین کی پرواہ نہیں! اِس کا نفع ہم لوگوں کی نگاہ میں نفع نہیں، دنیا کی تجارت جس میں ایک آنہ دوآنہ فی روپیہ نفع ملتا ہے، اُس کے پیچھے دن بھر خاک چھانتے ہیں، آخرت کی تجارت جس میں ستائیس گُنا نفع ہے وہ ہمارے لیے مصیبت ہے، جماعت کی نماز کے لیے جانے میں دُکان کانقصان سمجھاجاتا ہے، بِکری کا بھی نقصان بتایا جاتا ہے، دُکان کے بند کرنے کی بھی دِقَّت کہی جاتی ہے؛ لیکن جن لوگوں کے یہاں اللہ جَلَّ شَانُہٗ کی عظمت ہے، اللہ کے وعدوں پر اُن کواِطمینان ہے، اُس کے اجروثواب کی کوئی قیمت ہے؛ اُن کے یہاں یہ لَچَر عُذر کچھ بھی وَقعت نہیں رکھتے، ایسے ہی لوگوں کی اللہ جَلَّ شَانُہٗ نے کلام پاک میں تعریف فرمائی ہے: ﴿رِجَالٌ لَّاتُلْہِیْہِمْ تِجَارَۃٌ﴾ الآیۃ تیسرے باب کے شروع میں پوری آیت مع ترجَمہ موجود ہے، اورصحابۂ کرام ث کا جو معمول اذان کے بعد اپنی تجارت کے ساتھ تھا وہ ’’حکایاتِ صحابہ‘‘ کے پانچویں باب میں مُختصَر طور پرگزرچکا۔ سالم حَدَّادؒ ایک بزرگ تھے، تجارت کرتے تھے، جب اذان کی آوازسنتے تو رنگ مُتغیَّر ہوجاتا، اور زَرد پڑجاتا، بے قَرار ہوجاتے، دُکان کھُلی چھوڑ کرکھڑے ہوجاتے، اوریہ اشعار پڑھتے: إِذَا مَا دَعَا دَاعِیْکُمْ قُمْتُ مُسْرِعاً ء مُجِیْباً لِّمَوْلیٰ جَلَّ لَیْسَ لَہٗ مِثْلٌ جب تمھارا مُنادِی (مُؤذِّن) پکارنے کے واسطے کھڑاہوجاتا ہے تومَیں جلدی سے کھڑا ہوجاتا ہوں، ایسے مالک کی پکار کوقبول کرتے ہوئے جس کی بڑی شان ہے، اُس کاکوئی مِثل نہیں۔ أُجِیْبُ إِذَا نَادیٰ بِسَمْعٍ وَّطَاعَۃٍ ء وَبِيْ نَشْوَۃٌ لَّبَیْكَ یَا مَنْ لَّہُ الْفَضْلُ! جب وہ مُنادِی (مُؤذِّن)پکارتاہے تومیں بہ حالتِ نِشاط اِطاعت وفرماںبرداری کے ساتھ جواب میں کہتاہوں کہ: اے فَضل وبزرگی والے! لَبَّیْكَ، یعنی حاضر ہوتاہوں۔ وَیَصْفِرُ لَوْنِيْ خِیْفَۃً وَّمَهَابَۃً ء