فضائل اعمال ۔ یونیکوڈ ۔ غیر موافق للمطبوع |
|
تومیری خیر نہیں؛ چناںچہ حملے کے ارادے سے وہ حضورﷺکے قریب پہنچ گیا، صحابہ ث نے ارادہ بھی فرمایا کہ، دُور ہی سے اُس کونِمٹا دیں، حضورﷺ نے ارشادفرمایا کہ: ’’آنے دو‘‘ جب وہ قریب ہوا تو حضورﷺنے ایک صحابی کے ہاتھ میں سے بَرچھا لے کر اُس کے مارا، جو اُس کی گردن پر لگا، اورہلکاسا خَراش اُس کی گردن پرآگیا؛ مگراِس کی وجہ سے گھوڑے سے لُڑھکتا ہوا گِرا، اور کئی مرتبہ گِرا، اور بھاگتا ہوا اپنے لشکرمیں پہنچ گیا، اور چِلَّاتاتھا کہ: خداکی قَسم! مجھے محمدنے قتل کردیا، کُفَّار نے اُس کو اطمینان دلایا کہ معمولی خَراش ہے، کوئی فکر کی بات نہیں؛ مگروہ کہتاتھا کہ: محمد نے مکہ میں کہا تھا کہ: ’’مَیں تجھ کوقتل کروںگا‘‘ خداکی قَسم! اگر وہ مجھ پر تھوک بھی دیتے تو مَیں مرجاتا۔ لکھتے ہیں کہ: اُس کے چِلَّانے کی آواز ایسی ہوگئی تھی جیسا کہ بَیل کی ہوتی ہے، ابوسفیان نے -جو اِس لڑائی میں بڑے زوروں پر تھا- اُس کوشرم دِلائی، کہ اِس ذرا سی خَراش سے اِتنا چِلَّاتا ہے! اُس نے کہا: تجھے خبر بھی ہے کہ یہ کس نے ماری ہے؟ یہ محمد کی مار ہے، مجھے اِس سے اِس قدر تکلیف ہو رہی ہے، لات اور عُزّیٰ (دو مشہور بُتوں کے نام ہیں) کی قَسم! اگر یہ تکلیف سارے حِجاز والوں کوتقسیم کر دی جائے تو سب ہلاک ہوجائیں، محمد نے مجھ سے مکہ میں کہاتھا کہ: ’’مَیں تجھ کوقتل کروںگا‘‘ مَیں نے اُسی وقت سمجھ لیاتھا کہ مَیں اُن کے ہاتھ سے ضرور مارا جاؤںگا، مَیں اُن سے چھوٹ نہیں سکتا، اگر وہ اِس کہنے کے بعد مجھ پر تھوک بھی دیتے تو مَیں اُس سے بھی مرجاتا۔ چناںچہ مکۂ مکرمہ پہنچنے سے ایک دن پہلے وہ راستے ہی میں مرگیا۔ (تاریخ الخَمیس، ۱:۴۳۶) ہم مسلمانوں کے لیے نہایت غیرت اور عبرت کامقام ہے کہ: ایک کافر،پکے کافر اور سخت دشمن کو تو حضورﷺکے اِرشادات کے سچاہونے کا اِس قدریقین ہو کہ اُس کواپنے مارے جانے میں ذرا بھی تردُّد یاشک نہ تھا؛ لیکن ہم لوگ حضورﷺ کونبی ماننے کے باوجود، حضورﷺ کوسچا ماننے کے باوجود، حضورﷺکے ارشادات کو یقینی کہنے کے باوجود، حضورﷺ کے ساتھ محبت کے دعوے کے باوجود، حضورﷺکی اُمَّت میں ہونے پر فخر کے باوجود کتنے اِرشادات پر عمل کرتے ہیں؟ اورجن چیزوں میں حضورﷺ نے عذاب بتائے ہیں اُن سے کتناڈرتے ہیں؟ کتنا کانپتے ہیں؟ یہ ہرشخص کے اپنے ہی گِریبان میں منھ ڈال کر دیکھنے کی بات ہے، کوئی دوسرا کسی کے مُتعلِّق کیا کہہ سکتا ہے!۔ ابنِ حجرؒ نے کتاب ’’الزَّواجر‘‘ میں قارون کا بھی فرعون وغیرہ کے ساتھ ذکر کیاہے، اور لکھا ہے کہ: اِن کے ساتھ حشر ہونے کی یہ وجہ ہے کہ اکثراُن ہی وُجوہ سے نماز میں سستی ہوتی ہے جو اِن لوگوں میں پائی جاتی تھیں؛ پس اگر اِس