فضائل اعمال ۔ یونیکوڈ ۔ غیر موافق للمطبوع |
|
فائدہ:’’تَرغیب‘‘ میں ’’اَلطَّعَامَ وَالشَّرَابَ‘‘ کا لفظ ہے جس کاترجمہ کیا گیا، ’’حاکم‘‘ میں ’’شَرَاب‘‘کی جگہ ’’شَہَوَات‘‘ کا لفظ ہے، یعنی: مَیں نے روزے دار کو دن میں کھانے اور خواہشاتِ نفسانیہ سے روکا۔ اِس میں اشارہ ہے کہ، روزے دار کو خواہشاتِ نفسانِیہ سے جُدا رہنا چاہیے اگرچہ وہ جائز ہوں، جیسا کہ پیار کرنا، لِپٹنا۔ بعض روایات میں آیا ہے کہ: کلام مجید جواںمَرد کی شکل میں آئے گا، اور کہے گا کہ: مَیں ہی ہوں جس نے تجھے راتوں کو جگایا اور دن کوپیاسا رکھا۔ نیز اِس حدیث شریف میں اشارہ ہے اِس طرف کہ: کلامُ اللہ شریف کے حِفظ کا مُقتضیٰ یہ ہے کہ رات کو نوافل میں اُس کی تلاوت بھی کرے۔ حدیث نمبر ۲۷؍ میں اِس کی تصریح بھی گزر چکی ہے، خود کلامِ پاک میں مُتعدِّد جگہ اِس کی ترغیب نازل ہوئی، ایک جگہ ارشاد ہے: ﴿وَمِنَ الَّیْلِ فَتَہَجَّدْ بِہٖ نَافِلَۃً لَّکَ﴾. دوسری جگہ ارشاد ہے: ﴿وَمِنَ الَّیْلِ فَاسْجُدْ لَہٗ وَسَبِّحْہُ لَیْلًا طَوِیْلًا﴾.ایک جگہ ارشاد ہے: ﴿یَتْلُوْنَ اٰیَاتِ اللہِ اٰنَائَ الَّیْلِ وَہُمْ یَسْجُدُوْنَ﴾. ایک جگہ ارشاد ہے: ﴿وَالَّذِیْنَ یَبِیْتُوْنَ لِرَبِّہِمْ سُجَّداً وَّقِیَامًا﴾. چناںچہ نبیٔ کریم ﷺاور حضراتِ صحابہ ث کو بعض مرتبہ تلاوت کرتے ہوئے تمام رات گزر جاتی تھی۔ حضرت عثمان صسے مَروِی ہے کہ: بعض مرتبہ وِتر کی ایک رکعت میں وہ تمام قرآن شریف پورا فرمالیا کرتے تھے۔ اِسی طرح عبداللہ بن زُبیرص بھی ایک رات میں تمام قرآن شریف پورا فرما لیا کرتے تھے۔ سعید بن جُبیرؒنے دو رکعت میں کعبہ کے اندر تمام قرآن شریف پڑھا۔ ثابت بُنانیؒ دن رات میں ایک قرآن شریف ختم کرتے تھے، اور اِسی طرح ابوحَرَّۃ بھی۔ ابوشیخ ہُنائیؒ کہتے ہیں کہ: مَیں نے ایک رات میں دو کلام مجید پورے اور تیسرے میں سے دس پورے پڑھے، اگر چاہتا تو تیسرا بھی پورا کرلیتا۔ صالح بن کَیسانؒ جب حج کو گئے تو راستے میں اکثر ایک رات میں دو کلام مجید پورے کرتے تھے۔ منصور بن زاذانؒ صَلَاۃُالضُّحیٰ میں ایک کلام مجید اور دوسرا ظہر سے عصر تک پورا کرتے تھے، اور تمام رات نوافل میں گذارتے تھے، اور اِتنا روتے تھے کہ عِمامے کاشَملہ تَر ہوجاتا تھا۔ اسی طرح اَور حضرات بھی، جیسا کہ محمد بن نصرؒ نے ’’قِیَامُ اللَّیْل‘‘ میں تخریج کیا ہے۔ ’’شرحِ اِحیاء‘‘ میں لکھا ہے کہ: سَلَف کی عادات ختمِ قرآن میں مختلف رہی ہیں: بعض حضرات ایک ختم روزانہ کرتے تھے جیسا کہ امام شافعیؒ غیررمضان المبارک میں۔ اور بعض دوختم روزانہ کرتے تھے جیسا کہ خود امام شافعی صاحبؒ کا معمول رمضان المبارک میں تھا، اور یہی معمول اَسودؒ اور صالح بن کَیسانؒ، سعید بن جُبیرؒ اور ایک جماعت کا تھا۔ بعض کامعمول تین ختم روزانہ کا تھا؛ چناںچہ سُلَیم بن عَتَرؒجوبڑے تابعین میں شمار کیے جاتے ہیں، حضرت عمرصکے زمانے میں فتحِ مصر میں شریک تھے، اور حضرت معاویہ ص نے