فضائل اعمال ۔ یونیکوڈ ۔ غیر موافق للمطبوع |
|
کرنے کو کہتے ہیں: اول: حرف کو صحیح نکالنا،یعنی اپنے مخرج سے پڑھنا؛ تاکہ ’’طا‘‘ کی جگہ ’’تا‘‘ اور ’’ضاد‘‘ کی جگہ ’’ظا‘‘ نہ نکلے۔ دوسرے: وُقوف کی جگہ پراچھی طرح سے ٹھہرنا؛تاکہ وَصل اور قَطع کلام کا بے محل نہ ہوجاوے۔ تیسرے: حرکتوں میں اِشباع کرنا،یعنی: زبر، زیر، پیش کو اچھی طرح سے ظاہر کرنا۔ چوتھے: آواز کو تھوڑا سا بلند کرنا؛تاکہ کلامِ پاک کے الفاظ زبان سے نکل کر کانوں تک پہنچیں، اور وہاں سے دل پر اثر کریں۔ پانچویں: آواز کو ایسی طرح سے درست کرناکہ اُس میں درد پیدا ہوجاوے اور دل پر جلدی اثر کرے، کہ درد والی آواز دل پر جلدی اثر کرتی ہے، اور اِس سے رُوح کو قوَّت اور تأثُّر زیادہ ہوتا ہے؛ اِسی وجہ سے اَطِبَّا نے کہا ہے کہ: جس دوا کا اثر دل پر پہنچاناہو اُس کو خوشبو میں ملاکر دیا جائے، کہ دل اُس کو جلدی کھینچتا ہے، اور جس دوا کا اثر جِگر میں پہنچاناہو اُس کوشیرینی میں ملایاجائے، کہ جگر مٹھائی کا جاذِب ہے؛ اِسی وجہ سے بندے کے نزدیک اگر تلاوت کے وقت خوشبو کا خاص استعمال کیا جاوے تو دل پر تاثیر میں زیادہ تقوِیت ہوگی۔ چھٹے: تشدید اور مَد کو اچھی طرح ظاہر کیا جاوے، کہ اُس کے اظہار سے کلامِ پاک میں عظمت ظاہر ہوتی ہے، اور تاثیر میں اِعانت ہوتی ہے۔ ساتویں: آیاتِ رحمت وعذاب کا حق ادا کرے، جیسا کہ تمہید میں گزر چکا۔ یہ سات چیزیں ہیں جن کی رعایت ’’ترتیل‘‘ کہلاتی ہے، اور مقصود اِن سب سے صرف ایک ہے یعنی: کلامِ پاک کا فَہم وتدبُّر۔ حضرت اُمُّ المؤمنین اُمِّ سلمہ رَضِيَ اللہُ عَنْہَا سے کسی نے پوچھا کہ: حضور ﷺ کلامُ اللہ شریف کس طرح پڑھتے تھے؟ اُنھوں نے کہا کہ: سب حرکتوں کو بڑھاتے تھے، یعنی: زیروزبر وغیرہ کو پورا نکالتے تھے، اور ایک ایک حرف الگ الگ ظاہر ہوتا تھا۔ ترتیل سے تلاوت مستحب ہے اگرچہ معنیٰ نہ سمجھتا ہو۔ابن عباس صکہتے ہیں کہ: مَیں ترتیل سے اَلقَارِعَۃ اور إذَا زُلزِلتْ پڑھوں، یہ بہتر ہے اِس سے کہ بِلاترتیل سورۂ بقرہ اور آلِ عمران پڑھوں۔ شُرَّاح اورمشائخ کے نزدیک حدیثِ بالا کا مطلب یہ ہے کہ، قرآنِ پاک کی ایک ایک آیت پڑھتا جا اور ایک ایک درجہ اُوپر چڑھتا جا؛ اِس لیے کہ روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ جنت کے درجات کلامُ اللہ شریف کی آیات کے برابر ہیں؛ لہٰذا جو شخص جتنی آیات کا ماہر ہوگا اُتنے ہی درجے اوپر اُس کا ٹھکانہ ہوگا، اور جو شخص تمام کلامِ پاک کاماہر ہوگا وہ سب سے اوپر کے درجے میں ہوگا۔ مُلَّا علی قاریؒ نے لکھا ہے کہ: حدیث میں وارد ہے کہ قرآن پڑھنے والے سے اوپر کوئی درجہ نہیں، پس قُرَّاء، آیات کی بہ قدر ترقی کریںگے۔ اور علاَّمہ دانیؒ نے اہلِ فن کا اِس پر اتِّفاق نقل کیا ہے کہ: قرآن شریف کی آیات چھ ہزار ہیں؛ لیکن