فضائل اعمال ۔ یونیکوڈ ۔ غیر موافق للمطبوع |
|
تلقین: ہدایت۔ بَشارت: خوش خبری۔ بَرچھا: نیزہ۔ حضرت ارقم صصحابی کے مکان پرتشریف فرماتھے، یہ دونوں حضرات علاحِدہ علاحِدہ حاضرِ خدمت ہوئے اور مکان کے دروازے پر دونوں اِتِّفاقیہ اِکٹھّے ہوگئے، ہر ایک نے دوسرے کی غرض معلوم کی توایک ہی غرض یعنی:اسلام لانااورحضورﷺکے فیض سے مُستفید ہونا دونوں کا مقصود تھا، اسلام لائے اور اسلام لانے کے بعدجواُس زمانے میں اِس قلیل اور کمزور جماعت کو پیش آتا تھا وہ پیش آیا، ہر طرح ستائے گئے، تکلیفیں پہنچائی گئیں، آخر تنگ آکر ہجرت کا ارادہ فرمایا تو کافروں کویہ چیزبھی گَوَارا نہ تھی کہ یہ لوگ کسی دوسری ہی جگہ جاکر آرام سے زندگی بسر کرلیں؛ اِس لیے جس کسی کی ہجرت کاحال معلوم ہوتا اُس کوپکڑنے کی کوشش کرتے تھے، کہ تکالیف سے نجات نہ پاسکے، چناںچہ اِن کابھی پیچھا کیا گیا، اور ایک جماعت اِن کوپکڑنے کے لیے گئی، اِنھوں نے اپنا تَرکَش سنبھالا جس میں تیرتھے، اور اُن لوگوں سے کہاکہ: دیکھو!تمھیں معلوم ہے کہ مَیں تم سب سے زیادہ تیر اَندازہوں؛ اِتنے ایک بھی تیر میرے پاس باقی رہے گاتم لوگ مجھ تک نہیں آسکوگے، اورجب ایک بھی تیر نہ رہے گا تو مَیں اپنی تلوارسے مقابلہ کروںگا، یہاں تک کہ تلوار بھی میرے ہاتھ میں نہ رہے، اُس کے بعدجوتم سے ہوسکے کرنا؛ اِس لیے اگر تم چاہو تواپنی جان کے بدلے میں اپنے مال کاپتہ بتلاسکتاہوں، جومکہ میں ہے اوردوباندیاں بھی ہیں، وہ سب تم لے لو، اِس پروہ لوگ راضی ہوگئے، اوراپنامال دے کرجان چھُڑائی۔ اِسی بارے میں آیتِ پاک: ﴿وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَّشْرِيْ نَفْسَہُ ابْتِغَائَ مَرْضَاتِ اللّٰہِ، وَاللّٰہُ رَئُ وْفٌ بِالْعِبَادِ﴾[البقرۃ] نازل ہوئی، ترجمہ: بعض لوگ ایسے ہیں جو اللہ کی رَضاکے واسطے اپنی جان کو خرید لیتے ہیں، اوراللہ تعالیٰ بندوں پرمہربان ہیں۔ حضور ﷺاُس وقت قُبا میں تشریف فرما تھے، صورت دیکھ کر ارشاد فرمایا کہ: ’’نفع کی تجارت کی‘‘۔ صُہیبص کہتے ہیں کہ: حضور ﷺاُس وقت کھجورنوش اِتِّفاقیہ: اتفاق سے۔ مُستفیدہونا: فائدہ حاصل کرنا۔ گَوَارا: منظور۔ تَرکَش: تیر رکھنے کاخول۔ تیر اَنداز: تیرچلانے کاماہر۔ نازل: اُترنا۔ فرما رہے تھے اور میری آنکھ دُکھ رہی تھی، مَیں بھی ساتھ کھانے لگا، حضور ﷺ نے فرمایا کہ: ’’آنکھ تودُکھ رہی ہے اور کھجوریں کھاتے ہو‘‘،مَیںنے عرض کیا کہ: حضور! اُس آنکھ کی طرف سے کھاتاہوں جو تندرست ہے، حضور ﷺیہ جواب سن کرہنس پڑے۔ حضرت صُہیبص بڑے ہی خرچ کرنے والے تھے، حتی کہ حضرت