فضائل اعمال ۔ یونیکوڈ ۔ غیر موافق للمطبوع |
|
﴿فَلَمَّا قَضیٰ زَیْدٌ مِّنْہَا وَطَراً زَوَّجْنٰکَہَا لِکَيْ لَایَکُوْنَ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ حَرَجٌ فِيْ أَزْوَاجِ أَدْعِیَائِہِمْ إِذَا قَضَوْا مِنْہُنَّ وَطَراً، وَکَانَ أَمْرُ اللّٰہِ مَفْعُوْلًا﴾ (پس جب زید نے اپنی حاجت کو اُس سے پورا کرلیا توہم نے اُس کو تمھارے نکاح میں دے دیا؛ تاکہ نہ رہے مؤمنین پر تنگی اپنے لے پالکوں کی بیبیوں کے بارے میں جب کہ وہ اپنی حاجت اُن سے پوری کرچکے، اور اللہ کاحکم ہوکر ہی رہا)نازل ہوئی، جب حضرت زینب رَضِيَ اللہُ عَنْہَاکو اِس آیت کے نازل ہونے پر نکاح کی خوش خبری دی گئی، تو جس نے بَشارت دی تھی اُس کو وہ زیور نکال کر دے دیاجو وہ اُس وقت پہن رہی تھیں، اورخود سجدے میں گرگئیں اور دو مہینے کے روزوں کی مَنَّت مانی۔ حضرت زینب رَضِيَ اللہُ عَنْہَاکو اِس بات پر بجا طور پر فخرتھاکہ سب بیبیوں کا نکاح اُن کے عزیز، رشتے داروں نے کیا؛ مگرحضرت زینبرَضِيَ اللہُ عَنْہَا کا نکاح آسمان پر ہوا اور قرآنِ پاک میں نازل ہوا۔ اِسی وجہ سے حضرت عائشہ رَضِيَ اللہُ عَنْہَاسے مُقابلے کی نوبت بھی آجاتی تھی، کہ اِن کوحضورِ اقدس ﷺ کی سب سے زیادہ محبوبہ ہونے پر ناز تھا اور اُن کوآسمان کے نکاح پر ناز تھا؛لیکن اِس کے باوجود حضرت عائشہرَضِيَ اللہُ عَنْہَا پر تہمت کے قصے میں جب حضورِ اقدس ﷺ نے مِن جُملہ اَوروں کے اِن سے بھی دریافت کیا،تو اِنھوں نے عرض کیاکہ: ’’مَیں عائشہرَضِيَ اللہُ عَنْہَا میں بھلائی کے سِوا کچھ نہیں جانتی‘‘۔ یہ تھی سچی دِین داری؛ ورنہ یہ وقت سوکن کے اِلزام لگانے کاتھا اور خاوند کی نگاہ سے گِرانے کا، بِالخُصوص اُس سوکن کے جولاڈلی بھی تھی؛ مگر اِس کے باوجود زور سے صفائی کی اورتعریف کی۔ حضرت زینبرَضِيَ اللہُ عَنْہَا بڑی بزرگ تھیں، روزے بھی کثرت سے رکھتی تھیں، اور نوافل بھی کثرت سے پڑھتی تھیں، اپنے ہاتھ سے محنت بھی کرتی تھیں، اورجوحاصل ہوتا تھا اُس کو صدقہ کردیتی تھیں۔ حضورﷺکے وِصال کے وقت اَزواجِ مُطہَّرات رَضِيَ اللہُ عَنْہُنَّنے پوچھا کہ: ہم میں سے سب سے پہلے آپ ﷺسے کونسی بیوی ملے گی؟ آپ نے فرمایا: جس کاہاتھ لمبا ہو، وہ لکڑی لے کرہاتھ ناپنے لگیں؛ لیکن بعد میں معلوم ہوا کہ ہاتھ کے لمبا ہونے سے بہت زیادہ خرچ کرنامراد تھا؛ چناںچہ سب سے پہلے حضرت زینبرَضِيَ اللہُ عَنْہَا ہی کاوِصال ہوا۔ حضرت عمرصنے جب ازواجِ مُطہَّرات رَضِيَ اللہُ عَنْہُنَّ کی تنخواہ مقرر فرمائِیں اور اِن کے پاس اِن کے حصے کامال بارہ ہزار درہم بھیجے، یہ سمجھیں کہ یہ سب کا ہے، فرمانے لگِیں کہ: تقسیم کے لیے تو اَور بیبیاں زیادہ مناسب تھیں، قاصِد نے کہا کہ: یہ سب آپ ہی کاحصہ ہے اور تمام سال کے لیے ہے، توتعجب سے کہنے لگیں: سُبْحَانَ اللہ! اور منھ پر کپڑا ڈال لیا کہ اِس مال کودیکھے