فضائل اعمال ۔ یونیکوڈ ۔ غیر موافق للمطبوع |
|
مختلف ہیں کہ ہر شخص کو کتنی بیبیاں ملیںگی۔) مرد کے بعدکسی سے نکاح نہ کرے تو وہ عورت جنت میں اُسی مرد کو ملے گی، اِسی طرح اگرمرد دوسری عورت سے نکاح نہ کرے تووہی عورت اُس کوملے گی؛ اِس لیے لاؤ، ہم اورتم دونوں عہد کرلیں کہ ہم میں سے جو پہلے مرجائے دوسرا نکاح نہ کرے، ابوسلمہص نے کہا کہ: تم میرا کہنا مان لوگی؟ اُمِّ سلمہ رَضِيَ اللہُ عَنْہَانے کہا کہ: مَیں تو اِسی واسطے مشورہ کررہی ہوں کہ تمھارا کہنا مانوں، ابوسلمہ صنے کہا کہ: تومیرے بعد تم نکاح کرلینا، پھر دعاکی: یااللہ! میرے بعد اُمِّ سلمہ رَضِيَ اللہُ عَنْہَا کو مجھ سے بہتر خاوند عطافرما، جو نہ اِس کورنج پہنچائے نہ تکلیف دے۔ ابتدائے اسلام میں دونوں میاں بیوی نے حبشہ کی ہجرت ساتھ ہی کی، اِس کے بعدوہاں سے واپسی پر مدینہ طیبہ کی ہجرت کی، جس کامُفصَّل قصہ خود اُمِّ سلمہ رَضِيَ اللہُ عَنْہَا بیان کرتی ہیں کہ: جب ابوسلمہص نے ہجرت کاارادہ کیا تو اپنے اونٹ پر سامان لادا، اور مجھے اور میرے بیٹے سلمہ ص کوسوار کرایا، اور خود اونٹ کی نکیل ہاتھ میں لے کر چلے، میرے مَیکے کے لوگوں بنومُغِیرہ نے دیکھ لیا، اُنھوں نے ابوسلمہص سے کہا کہ: تم اپنی ذات کے بارے میں توآزاد ہوسکتے ہو؛ مگر ہم اپنی لڑکی کوتمھارے ساتھ کیوں جانے دیں کہ یہ شہر در شہر پھرے؟ یہ کہہ کر اونٹ کی نکیل ابوسلمہ صکے ہاتھ سے چھین لی اور مجھے زبردستی واپس لے آئے، میرے سُسرال کے لوگ بنو عبدُالاَسَد کو -جو ابوسلمہ ص کے رشتے دار تھے- جب اِس قصے کی خبر ملی تو وہ میرے مَیکے والوں بنو مُغِیرہ سے جھگڑنے لگے، کہ تمھیں اپنی لڑکی کا تو اختیار ہے؛ مگر ہم اپنے لڑکے سلمہ کوتمھارے پاس کیوں چھوڑ دیں، جب کہ تم نے اپنی لڑکی کو اُس کے خاوند کے پاس نہیں چھوڑا؟ اور یہ کہہ کر میرے لڑکے سلمہ کوبھی مجھ سے چھین لیا، اب مَیں اور میرا لڑکا اورمیراشوہر؛ تینوں جُداجُداہوگئے: خاوند تومدینہ چلے گئے، مَیں اپنے مَیکے میں رہ گئی، اور بیٹا اپنے دَدھیال میں پہنچ گیا، مَیں روز میدان میں نکل جاتی اور شام تک رویاکرتی، اِسی طرح پورا ایک سال مجھے روتے گزر گیا، نہ مَیں خاوند کے پاس جاسکی نہ بچہ مجھے مِل سکا، ایک دن میرے ایک چچا زاد بھائی نے میرے حال پر ترس کھاکر اپنے لوگوں سے کہا کہ: تمھیں اِس مِسکِینہ پر ترس نہیں آتا کہ اِس کوبچہ اورخاوند سے تم نے جُدا کر رکھا ہے، اِس کو کیوں نہیں چھوڑ دیتے؟ غرض میرے چچا زاد بھائی نے کہہ سُن کر اِس بات پر اُن سب کوراضی کرلیا، اُنھوں نے مجھے اجازت دے دی کہ تُو اپنے خاوند کے پاس جانا چاہتی ہے توچلی جا، یہ دیکھ کر بنو عبدالاَسَدنے بھی لڑکا دے دیا، مَیں نے ایک اونٹ تیار کیا اور بچہ گود میں لے کر اونٹ پر تنہا سوار ہوکر مدینہ کو چل دی، تین چار مِیل چلی تھی کہ ’’تنعیم‘‘ میں عثمان بن طلحہص