فضائل اعمال ۔ یونیکوڈ ۔ غیر موافق للمطبوع |
|
الْوِسَادَۃِ، صَاحِبُ الْمِطْہَرَۃِ‘‘: جوتے والے، تکیے والے، وُضو کے پانی والے؛ یہ اَلقاب بھی اِن کے ہی ہیں؛ اِس لیے کہ حضورِ اقدس ﷺکی یہ خدمتیں اکثر اِن کے سپرد رہتی تھیں۔ حضورﷺ کا اِن کے بارے میں یہ بھی ارشاد ہے کہ: ’’اگر مَیں کسی کو بغیر مشورے کے امیر بناؤں توعبداللہ بن مسعود صکو بناؤں‘‘۔ حضورﷺ کایہ بھی ارشادتھا کہ: ’’تمھیں ہر وقت حاضری کی اجازت ہے‘‘۔ حضور ﷺ کا یہ بھی ارشاد ہے کہ: ’’جس شخص کوقرآن شریف بالکل اُسی طرح پڑھنا ہوجس طریقے سے اُترا ہے، تو عبداللہ بن مسعودص کے طریقے کے موافق پڑھے‘‘۔ حضور ﷺ کایہ بھی ارشاد ہے کہ: ’’ابن مسعودص جو حدیث تم سے بیان کریں اُس کوسچ سمجھو‘‘۔ ابوموسیٰ اشعری ص کہتے ہیں کہ: ہم لوگ جب یمن سے آئے توایک زمانے تک ابنِ مسعودصکو اَہلِ بیت میں سے سمجھتے رہے؛ اِس لیے کہ اِتنی کثرت سے اُن کی اور اُن کی والدہ کی آمد ورَفت حضورﷺکے گھر میں تھی جیسی گھر کے آدمیوں کی ہوتی ہے۔ (بخاری، کتاب الطہارۃ، باب من حمل معہ الماء لطہورہ، ۱؍ ۲۷) لیکن اِن سب باتوں کے باوجود ابوعَمرو شَیبانیص کہتے ہیں کہ: مَیں ایک سال تک ابن مسعودص کے پاس رہا، مَیں نے کبھی اُن کو حضورﷺ کی طرف منسوب کرکے بات کرتے نہیں سنا؛ لیکن اگرکبھی حضورﷺکی طرف کوئی بات منسوب کردیتے تھے توبدن پرکپکپی آجاتی تھی۔ عَمروبن مَیمون ص کہتے ہیں کہ: مَیں ہرجمعرات کوایک سال تک ابن مسعود ص کے پاس آتا رہا، مَیں نے کبھی حضور ﷺکی طرف نسبت کرکے بات کرتے نہیں سنا، ایک مرتبہ حدیث بیان فرماتے ہوئے زبان پر یہ جاری ہوگیا کہ: حضورﷺنے یہ ارشادفرمایا، توبدن کانپ گیا، آنکھوں میں آنسو بھر آئے، پیشانی پر پسینہ آگیا، رَگیں پھول گئیں، اور فرمایا: إِنْ شَاءَ اللہ یہی فرمایا تھا، یااِس کے قریب قریب تھا، یااِس سے کچھ زیادہ، یا اِس سے کچھ کم۔ (مقدَّمۂ اَوجَز۔مُسنَدِاحمد) فائدہ: یہ تھی اُن حضراتِ صحابۂ کرام ثکی اِحتِیاط حدیث شریف کے بارے میں؛ اِس لیے کہ حضورﷺ کاارشاد ہے کہ: ’’جو میری طرف سے جھوٹ نقل کرے اپناٹھکانا جہنَّم میں بنا لے‘‘۔ اِس خوف کی وجہ سے یہ حضرات باوجودیکہ مسائل حضور ﷺکے اِرشادات اورحالات ہی سے بتاتے تھے؛ مگر یہ نہیں کہتے تھے کہ: حضورﷺ کایہ ارشاد ہے، کہ خدانہ خواستہ جھوٹ نہ نکل جائے۔ اِس کے بِالمُقابل ہم اپنی حالتیں دیکھتے ہیں کہ بے دَھڑک، بے تحقیق حدیث نقل کر دیتے ہیں، ذرا بھی نہیں جھجھکتے؛ حالاںکہ حضورﷺکی طرف