فضائل اعمال ۔ یونیکوڈ ۔ غیر موافق للمطبوع |
|
کثرت سے اُن سے حدیثیں نقل ہیں کہ کسی دوسرے صحابی سے اِتنی زیادہ نقل کی ہوئی موجود نہیں، اِس پر لوگوں کوتعجب ہوتا تھا کہ ۷ھ میں یہ مسلمان ہوکر تشریف لائے، اور ۱۱ھ میں حضورِ اقدس ﷺ کا وِصال ہوگیا، اِتنی قلیل مدت میں -جو تقریباً چار برس ہوتی ہے- اِتنی زیادہ حدیثیں کیسے یاد ہوئیں؟ خود حضرت ابوہریرہ ص اِس کی وجہ بتاتے ہیں، فرماتے ہیں کہ: لوگ کہتے ہیں کہ: ابوہریرہ بہت روایتیں نقل کرتے ہیں، میرے مُہاجِر بھائی تجارت پیشہ تھے، بازار میں آنا جانا پڑتا تھا، اور میرے انصاری بھائی کھیتی کاکام کرتے تھے اِس کی مشغولی اُن کو دَرپیش رہتی تھی، اورابوہریرہ اصحابِ صُفَّہ کے مَساکِین میں سے ایک مِسکین تھا، جو حضورِاقدس ﷺکی خدمتِ اقدس میں جو کچھ کھانے کو مل جاتا تھا اُس پر قَناعت کیے پڑا رہتا تھا، ایسے اوقات میں موجود ہوتا تھا جس میں وہ نہیں ہوتے تھے، اور ایسی چیزیں یاد کرلیتا تھا جن کو وہ یاد نہیں کرسکتے تھے۔ ایک مرتبہ مَیں نے حضور ﷺسے حافظے کی شکایت کی، حضورﷺنے فرمایا: چادر بچھا، مَیں نے چادربچھائی، حضورﷺنے دونوں ہاتھوں سے اُس میں کچھ اشارہ فرمایا، اِس کے بعد فرمایا: اِس چادر کومِلا لے، مَیں نے اپنے سینے سے ملا لیا، اِس کے بعدسے کوئی چیز نہیں بھولا۔ (بخاری، کتاب العلم، باب حفظ العلم، ۱؍ ۲۲) فائدہ: اَصحابِ صُفَّہ وہ لوگ کہلاتے ہیں جو حضورِاقدس ﷺکی گویا خانقاہ کے رہنے والے تھے، اِن حضرات کے اِخراجات کاکوئی خاص نظم نہیں تھا، گویا حضور ﷺ کے مہمان تھے، جو کہیں سے کچھ ہدیہ یاصدقے کے طور پر آتا اُس پر اُن کازیادہ تر گزرتھا۔ حضرت ابوہریرہ ص بھی اِن ہی لوگوں میں تھے، بَسااوقات کئی کئی وقت کے فاقے بھی اِن پر گزرجاتے تھے، بعض اوقات بھوک کی وجہ سے جُنون کی سی حالت ہوجاتی تھی، جیسا کہ تیسرے باب کے قصہ ۳؍ و۷؍ میں گزرا؛ لیکن اِس کے باوجود احادیث کاکثرت سے یاد کرنا اِن کامشغلہ تھا، جس کی بدولت آج سب سے زیادہ احادیث اِن ہی کی بتائی جاتی ہیں۔ ابنِ جَوزیؒ نے ’’تلقیح‘‘ میں لکھا ہے کہ: پانچ ہزار تین سو چوہتَّر (۵۳۷۴) حدیثیں اِن سے مَروی ہیں۔ ایک مرتبہ حضرت ابوہریرہ صنے جنازے کے متعلِّق ایک حدیث بیان کی کہ: حضورﷺ کا ارشاد ہے: ’’جوشخص جنازے کی نماز پڑھ کر واپس آجائے اُس کوایک قِیراط ثواب ملتا ہے، اور جو دفن تک شریک رہے اُس کو دو قِیراط ثواب ملتا ہے، اور ایک قیراط کی مقدار اُحُد کے پہاڑ سے بھی زیادہ ہے‘‘۔ حضرت عبداللہ بن عمرص کواِس حدیث میں کچھ تردُّدہوا، اُنھوں نے فرمایا: ابوہریرہ! سوچ کرکہو، اُن کوغُصَّہ آگیا، سیدھے حضرت عائشہ رَضِيَ اللہُ عَنْہَا کے