اصلاح انقلاب امت - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
تک) کے محتاج ہوجاتے ہیں، پس دینی ودنیوی خرابیوں کے مجموعے سے وہ مضمون صادق آتاہے: {خَسِرَ الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَۃَط ذٰلِکَ ہُوَ الْخُسْرَانُ الْمُبِیْنُO}1 دنیا اور آخرت کا نقصان اُٹھایا، یہی کھلا خسارہ ہے۔ اور یہ سب خرابیاں تو کثرتِ مہر کی اس وقت ہیں جب ادا نہ کیا جائے یا ادا کاارادہ نہ ہو اور اگر مرد پر خدا کا خوف غالب ہوا اور حقوق العباد (بندوں کے حقوق) سے اُس نے سبک دوش (فارغ) ہونا چاہا اور ادا کا قصد کیا، تو اس وقت یہ مصیبت پیش آتی ہے کہ اتنی مقدار کا ادا کرنا اس کے تحمل سے زیادہ ہوتاہے، تو اس پر فکر اور تردّد کا بارِ عظیم پڑتاہے، اور کما کماکر ادا کرتاہے، مگر مقدار زیادہ ہونے سے وہ ادا نہیں ہوتا اور تمام تر اس کا ذخیرہ اسی میں کھپتا چلا جاتاہے اور طرح طرح کی تنگی برداشت کرتاہے، پھر اس سے دل میں تنگی اور پریشانی ہوتی ہے، یہ تو مرد کی تکلیف ہوئی، پھر چوںکہ سبب اس تمام تر تکلیف کا وہ عورت ہے اس لیے انجام کار (نتیجے میں) اس مرد کے دل میں اس سے انقباض (کھنچاؤ)، پھر انقباض سے تنفر (نفرت)، پھر عداوت (دشمنی) پیدا ہوجاتی ہے، پس جو نکاح کہ موضوع تھا مصالحِ زوجین اور اتحاد ِباہمی کے لیے وہ بالواسطہ اس کے ایک حقِ خاص یعنی مہر کے اس طریق پر سبب ہوگیا اس کے ضد یعنی عداوت وکدورت (دشمنی اور نفرت )کا، پس یہ صریح قلبِ موضوع (اُلٹا معاملہ) ہے جس کا سبب کثرت مہر کی ہے، پس قلبِ موضوع جب قبیح(خراب) ہے، اس کا سبب بھی قبح (خرابی) سے خالی نہ ہوگا، اس حدیث کا یہی مطلب ہے: تَیَاسَرُوْا فِي الْصَدَاقِ، فَإِنَّ الرَّجُلَ لَیُعْطِيْ الْمَرْأَۃَ حَتَّی یَبْقَی ذَالِکَ فِيْ نَفْسِہِ عَلَیْہَا حَسِیْکَۃٌ۔1 مہر کے اندر آسانی(کمی) اختیار کرو، اس لیے کہ مرد عورت کو (زیادہ مہر دے) بیٹھتا ہے، حتیٰ کہ اس دینے سے اس کے نفس کے اندر عورت سے متعلق دشمنی باقی رہ جاتی ہے۔ اور اُوپر جو خطبہ حضرت عمر ؓ کا گزرا، اس میں یہ بھی ہے: إِنَّ أَحَدَکُمْ لَیُغْلِيْ بِصَدُقَۃِ الْمَرْأَۃِ حَتَّی یَکُوْنَ لَہَا عَدَاوَۃٌ فِيْ نَفْسِہِ۔۔۔۔ إِلَخْ۔ تم میں سے کوئی عورت کو کثیر مہر ادا کرتاہے، یہاں تک کہ مرد کے دل میں عورت کے لیے عداوت بیٹھ جاتی ہے۔