اصلاح انقلاب امت - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
ہیں، سو خوب سمجھ لو کہ: مثل ذلک الرجل کافر وإن زعم أنہ مسلم۔ ایسا آدمی کافر ہے خواہ وہ اپنے آپ کو مسلمان ہی سمجھتا ہو۔ اور مسلمہ کا نکاح کافر مرد سے نہیں ہوتا، یا اگر مسلمان ہونے کے بعد کوئی ان اُمور سے کسی کا مرتکب ہوا تو کافر ہوجاتا ہے، اور نکاح ٹوٹ جاتاہے، اور عمر بھر حرام کاری ہوتی ہے، پس بے حد ضرورت ہے کہ نکاح کے قبل داماد صاحب کے ڈاڑھی اور فیشن کو اگر نہ دیکھو تو اس کے مسلمان ہونے کی تو تحقیق کرلیا کرو، اور بعد نکاح ایسا امر پیش آئے تو توبہ کراکر تجدیدِ نکاح کرادیا کرو، بہت مہتم بالشان (انتہائی اہمیت والا) اَمر ہے۔ضرورت اور وسعت ہونے پر نکاحِ ثانی کرنا واجب ہے : ایک کوتاہی اس باب میں جوکہ سب سے اوّل کوتاہی کے مقابل ہے، یہ ہے کہ بعضے لوگ باوجود ضرورت کے اور باوجود وسعت کے نکاح نہیں کرتے، بعضے تو اوّل ہی سے نہیں کرتے، اور بعضے ایک بیوی کے مرنے یا طلاق دے دینے کے بعد پھر نہیںکرتے، سو خوب جان رکھو، کہ جب ضرورت یعنی نفس میں تقاضا ہو، اور وسعت بھی ہو، گو اس قدر ہو کہ روز کے روز کماؤں گااور کھلاؤں گا، تو نکاح کرنا اس صورت میں واجب ہے، اور اس کے ترک سے گناہ گار ہوگا۔نکاح کس صورت میں فرض ہے؟ اور اگر وسعت کے ساتھ بہت زیادہ تقاضا ہے کہ بدون (بغیر) نکاح کیے ہوئے فعلِ حرام میں مبتلا ہوجانے کا اندیشہ ہے، تو نکاح کرنا فرض ہوگا۔ ومن الفعل الحرام النظر المحرم والاستمناء بالکف۔ فعلِ حرام میں نظرِ حرام اور جلق بازی بھی شامل ہے۔