اصلاح انقلاب امت - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
شرط مقصود نہیں، اصل شرط تَراضیٔ جانبین (ناکح اور منکوحہ کا راضی ہونا) ہے، کیوںکہ بعد تراضی کے احیاناً (بسا اوقات) انکارِ تراضی کا بھی احتمال تھا قطعِ نزاع (جھگڑا ختم کرنے) کے لیے شہود کا حکم کیا گیا، تاکہ اختلاف رفع ہونے میں آسانی ہو، ورنہ نفسِ حل و صحتِ نکاح شہود پر موقوف نہیں‘‘، انتہی کلام الشنیع۔ اور ایک شخص کا یہ مقولہ معلوم ہوا کہ ’’نکاح بھی مثل معاملاتِ بیع و شرا (معاملاتِ خرید وفروخت) کے ایک معاملہ ہے، پس جس طرح دوسری چیزوں کا لین دین باہم متعاقدین (معاملہ کرنے والوں) کی رضا سے ہوتا ہے، اسی طرح اس میں بھی اس کو کافی سمجھا جائے گا، پس عورت سے نکاح کرنا مثل گائے اور بکری کے خرید لینے کے ہے۔‘‘ انتہی مقولہ الفضیح۔ اس شخص نے شرطِ شہود کو بالکل حذف کردیا، پس پہلے شخص کا قول تو الحاد (بے دینی) تھا، اور یہ زَندقہ (کفر) ہے، جو اِلحاد سے اَشد ہے، اور ان دونوں قولوں کے اِبطال(باطل ہونے) کے لیے اتنا کافی ہے کہ یہ رائے محض ہے، بہ مقابلہ نصِ صریح اور اجماع کے، جو اَحد الامرین یعنی شہادت یا اعلان کے اشتراط پر منعقد ہے، پس غیر مسموع(غیر معتبر) ہے۔جہلِ مرکب کی حسیات سے ایک مثال : حسیات (محسوس کی جانے والی چیزوں) میں اس کی ایسی مثال ہے جیسے کسی جاہل گنوار سے جس کی بغل میں دومن پختہ کشمش کا بورا تھا، ریل میں جب ڈپٹی کلکٹر نے ۔ِبلٹی مانگی، تو اس نے پھراپناہی ٹکٹ پیش کردیا، اس نے کہا: ’’اس کا ٹکٹ الگ لاؤ۔‘‘ اس نے جواب دیا: ’’یہی اس کا ٹکٹ بھی ہے۔‘‘ بابو نے کہا: ’’اس ٹکٹ میں پندرہ سیر سے زیادہ لے جانے کی اجازت نہیں ہے۔‘‘ اس نے جواب دیاکہ ’’نہیں، جتنا جو شخص آسانی سے اُٹھالے وہی اس کا پندرہ سیر ہے، تم لوگ ضعیف ہو، پندرہ سیر سے زیادہ نہیں اُٹھا سکتے، ہم قوی ہیں، ہم زیادہ اُٹھاسکتے ہیں۔‘‘ پس اس گنوار کے اگر یہ معنی ہیں کہ پندرہ سیر کا قانون تو ٹھیک ہے، مگر معلّل ہے، ۔ّعلتِ مذکورہ سے، تو اس کا جواب مشابہ ہے قائلِ اوّل کے قول کے، اور اگر یہ معنی ہیں کہ قانون ہی لغو ہے تو مشابہ ہے قائلِ ثانی کے قول کے، اور دونوں حال میں کیا قانون کے مقابلے میں اس کا قول ماناجاسکتا ہے؟ یہی حال سمجھ لیجیے ان دونوں قولوں کا۔ بہر حال یہ کیفیت ہے اس زمانے میں جہلِ مرکب کے شیوع (عام ہونے) کی، پس خفیہ نکاح کرنے میں چوںکہ شہود کی اطلاع عام نہ ہوگی، بہت قریب ہے کہ اس کو نکاح بلاشہود سمجھا جائے، اور ان دونوں اقوالِ باطلہ کے قائلین اس سے اپنی رائے کی تائید کاکام لیں، اور ظاہر ہے کہ اِلحاد و زَندقے کا مؤید بننا گو بالتسبّب (سبب بننے کے ساتھ) ہی ہو، بالمباشرت (عملاً) نہ ہو، کیسا اَمرِ قبیح ہوگا، یہ چھٹی خرابی ہوگئی۔