اصلاح انقلاب امت - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
کثرتِ مہر محض رسم پرستی ہے، جس میں کوئی مصلحت نہیں : بعضے لوگ اس میں مصلحت یہ بیان کرتے ہیں کہ قلت میں ذلت ہے اور کثرت میں ۔ّعزت، سو اوّل تو ہر قلت میں جب کہ درجۂ اعتدل پر ہو ذلت نہیں، دوسرے اگر یہ مصلحت بھی ہوئی، مگر مفاسد بے تعداد (بے شمار) ہوئے تو وہ مصلحت کب قابلِ تحصیل (حاصل ہونے کے قابل) ہوگی، تیسرے اگر تحصیلِ مصلحت تفاخر کے ساتھ قدرت علی الاداء (اظہار ِفخر کے ساتھ ادا کرنے کی قوت) کی کچھ بھی رعایت نہ ہو تو بقول میرے اُستاذ علیہ الرحمۃ1 کے پھر اسی مقدار پر کیوں بس کی جاتی ہے؟ اس سے زیادہ مقدار میں اس سے زیادہ ۔ّعزت اور فخر ہے، تو بہتر ہے کہ ہفت اقلیم کی سلطنت کا خراج، بلکہ اس کا بھی مضاعف (دو چند) یا اضعافاً مضاعفتاً (چند در چند) ۔ّمقرر کیا جائے، کیوںکہ نہ دینا نہ لینا، صرف نام ہی نام، تو اچھی طرح سے کیوں نہ نام کیا جائے؟ حقیقت یہ ہے کہ یہ سب رسم پرستی ہے، ورنہ واقع میں مصلحت کچھ نہیں، اور مفاسد ۔ّمتنوع (خرابیاں قسم قسم کی) ہیں، لہٰذا اس کے واجب الاصلاح( اس کی اصلاح ضروری) ہونے میں کوئی شبہ نہیں رہا، پس رسم کو چھوڑو اور عقل وشرع کا اتباع کرو، البتہ جن صورتوں میں مہر ِمثل سے کم کا ۔ّمقرر کرنا ولی کو جائز نہ ہو جیسا فروعِ فقہیَّہ (فقہی احکام ومسائل) میں مذکور ہے، وہاں اس پر عمل کی یہ صورت ہے کہ سب متفق ہوکر اپنے عرف کو بدلیں، جس سے خود قلیل ہی مہر ِمثل بن جائے، بہرحال یہ صورت بھی اشکال کی نہیں جس سے کوئی نیم ۔ُملا۔ّ شبہ کرسکے۔مہر مقرر کرنے کے وقت مقدار کا تعین کرناضروری ہے : ایک کوتاہی مہر کے بارے میں یہ ہے کہ بعضے لوگ بدون ذکرِ مقدار کے محض ’’شرع محمدی‘‘ کے عنوان سے مہر ٹھہراتے ہیں اور پھر اُس کے مفہوم کی تعیین میں کوئی اصطلاح بھی بیان نہیں کرتے، تو اس طرح کا ٹھہرانا بجائے نہ ٹھہرانے ہی کے ہے اور مہر نہ ٹھہرانا گناہ ہے، جیسا اُوپر مہر ادا کرنے کی نیت نہ ہونے میں مشابہ زنا کے قرار دینے کی تقریر میں مذکور ہوا ہے، پس یہ گناہ کے مرتکب ہوئے، پھر اگر کسی وقت وصول کے لیے نزاع (جھگڑا) ہوا تو کیا مقدار ادا کی جائے گی؟ اور چوںکہ قوم کی قوم میںیہی رسم ہے اس لیے مہر ِمثل کی تحکیم (فیصلہ) بھی دشوار ہے، پس اس ابہام میں یہ خرابیاں ہیں اور اسی قبیل (قسم) سے ہے وہ رسم جو بعض نواح (نزدیکی علاقوں) میں معلوم ہوئی ہے کہ ’’سوا سیر کو دوں‘‘ کے عنوان سے مہر ٹھہراتے ہیں، جس کی شرح تحقیق کرنے سے یہ معلوم ہوئی ہے، کہ’’ سوا سیر کو دوں‘‘ کی جس قدر شمار ہے اتنے شمار سے روپے ہوں، سو ظاہر ہے کہ یہ کوئی ۔ّمعین (۔ّمقررہ) شمار نہیں ہے، اگر ’’سوا سیر کو دوں‘‘ کے دو انبار (ڈھیر) ہوں یقینا ان کے شمار میں تفاوت بھی ہوگا،