اصلاح انقلاب امت - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
جس سے دوسرے مسافروں کے آرام ونوم میں خلل پڑتاہے۔ بعضے ایسا کرتے ہیں کہ دوسرے مسافر کے کمرے میں سے جب کہ وہ کہیں چلاگیا ہو چارپائی اُٹھالاتے ہیں، وہ غریب آکر پریشان ہوتا ہے، اتنی ہمت۔ّ نہیں ہوتی کہ بھٹیارے مانگ لیں اور اگر نہ ملے مجبوری ہے، ان کو کیا حق ہے کہ دوسرے کی سابق قبضہ کی ہوئی لے لیں کہ شریعت کے بھی خلاف ہے اور مروّت سے بھی بعید ہے، اگر یہی معاملہ ان کے ساتھ ہو تو کیسی دل پر گزرے؟ تو انصاف کا مقتضا یہ ہے کہ ’’آنچہ بخود نہ پسندی بر دیگراں مپسند۔‘‘ اور مثلاً: بعضے لوگ باوجودے کہ پیشاب پاخانے کے لیے خاص مواقع ہیں، مگر کوٹھری ہی میں ۔ُموت لیتے ہیں، یا کہیں گزر گاہ ِمسافران پر ایسا کرتے ہیں، جس سے بعض اوقات ٹھیکے دار کو صاف کرانا پڑتا ہے اور بعض اوقات دوسرے مسافر کو تکلیف ہوتی ہے، مثلا: بعض لوگ چلتے وقت ٹھیکے دار کا حساب صاف کرکے نہیں جاتے یا تو چپکے سے نکل گئے یا نزاع واختلاف کرکے گئے، اس میں علاوہ گناہ کے جس میں حق اللہ وحق العبد دونوں ضایع کیے جاتے ہیں، ایک خرابی یہ ہوتی ہے کہ دوسرے مسافروں کابھی اعتبار جاتا ہے اور ان کے لیے ضوابط سخت تجویز کیے جاتے ہیں اور اس کا سبب یہ شخص بنتا ہے، ایسے ہی لوگوں کی نسبت حدیث میں مِفْتَاحُ الشَّرِّ مِغْلَاقُ الْخَیْرِ آیا ہے۔اگر کسی کے پاس جانا ہو تو اسے پہلے سے اطلاع دینی چاہیے : اور اگر کسی میزبان کے پاس ٹھہرتے ہیں تو اس میں بعضے یہ کوتاہی کرتے ہیں کہ بدون اس کے کہ اس کو اپنی آمدنی کی اطلاع دیں اس کے پاس بدون کھانا کھائے بے وقت جاپہنچتے ہیں کہ اس وقت اس کو کھانا تیار کرانے میں ۔ُکلفت ہوتی ہے، اگر حساب سے پہنچنے کا وقت ناوقت ہوتو چاہیے کہ کھانے کا انتظام پہنچنے کے وقت بہ طورِ خود کرلیں اور فارغ ہوکر وہاں جاویں اور جاتے ہی اطلاع کردیں۔ بعضے یہ کوتاہی کرتے ہیں کہ اوّل اس کو اپنی آمد کے وقت سے اطلاع تو دے دی ہے، مگر اس وقت پہنچتے نہیں، وہ بے چارا اسٹیشن پر آیا، سواری کا کرایہ دیا، وقت ۔َصرف کیا، کھانا پکوایا اور یہ نواب صاحب ذرا رائے بدلنے سے یا کسی دوسرے میزبان کے اصرار کرنے سے پھسک گئے۔ بعض اوقات وہ کئی کئی وقت اسی طرح تکلیف اُٹھاتاہے اور ان کو یہ توفیق بھی نہیں ہوتی کہ وقتِ موعود آنے کے قبل اس کو مکرّر اس ارادے کے فسخ یا تبدیل کی اطلاع کردیں۔ خوب یاد رکھو کہ یہ سب اسلام کے خلاف ہے، گو لوگ اس کو سر سری سمجھتے ہیں، حدیث میں نص ہے: اَلْمُسْلِمُ مَنْ سَلِمَ الْمُسْلِمُوْنَ مِنْ لِسَانِہِ وَیَدِہِ۔ مسلمان وہ ہے کہ جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔ پھر جب اس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرا سالم نہ رہا تو مسلم بہ درجۂ مقصودہ فی الحدیث کہاں رہ گیا؟ مشکل یہ ہے کہ آج کل