اصلاح انقلاب امت - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
کی فکر اس سے آدھی بھی نہیں، یعنی اہتمام نہیں۔بیوہ کا نکاحِ ثانی نہ کرنے سے اس کی صحت، آبرو اور دین برباد ہونے کا اندیشہ ہے : اِس میںاوراُس میںفرق کیاہے، بلکہ اگر غورِ صحیح سے کام لیا جائے تو بہ نسبت نکاحِ اوّل کے نکاحِ ثانی اس بیوہ کا اہم ہے، کیوںکہ پہلے تو وہ خالی الذہن تھی، مصالحِ زوجیت کا یاتو علم ہی نہ تھا، یا تھاتو علم الیقین تھا، اور اب اس کو عین الیقین ہوگیا ہے، اس حالت میںاس پر وساوس وحسرات کا ہجوم زیادہ ہوتاہے، جس سے کبھی صحت، کبھی آبرو، کبھی دین، کبھی سب برباد ہوجاتے ہیں۔بیوہ کو شفقت اور محبت سے نکاحِ ثانی کی ترغیب دینی چاہیے : بعض لوگ کہتے ہیں:’’ہم نے پوچھا تھا، وہ راضی نہیںہوتی۔‘‘ صاحبو! مجھ کو اس میں بھی کلام ہے کہ جو طریقہ پوچھنے کا ہوتاہے اسی طرح پوچھا تھا؟ یا چلتی ہوئی بات کہہ کر الزام اُتار دیا؟ پوچھنے پر جو بیوہ انکار کرتی ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ جانتی ہے کہ اگر میں ایک دَم سے راضی ہوجاؤں گی تو خاندان کے لوگ یوں کہیں کہ ’’یہ تو منتظر ہی بیٹھی تھی، خاوند کو ترس رہی تھی۔‘‘ اس میں بدنامی ہوگی، اس خوف سے وہ ظاہراً انکار کردیتی ہے، چاہیے یہ کہ اس کو اچھی طرح مصلحتیں بتلاؤ، اس کے وسوسے رفع کرو، شفقت اور اہتمام سے گفتگو کرو، اگر اس پر بھی وہ راضی نہ ہو تو تم معذور ہو۔بچوں والی عمر رسیدہ صاحبِ وسعت بیوہ کو نکاحِ ثانی کرناضروری نہیں : غرض حتی الامکان بیوہ کا نکاح ہی کردینا مناسب ہے، البتہ اگر کوئی بیوہ بچے والی ہو، اور عمر بھی ڈھل گئی ہو، اور کھانے پینے کی بھی گنجایش ہو، اور وہ انکار کرتی ہو، اور قرائن سے استغنا (بے نیاز ہونا) اس کا زوج (شوہر) سے معلوم ہو تو اس کے لیے اہتمام ضروری نہیں۔زوجین کی مرضی کے خلاف نکاح کردینے سے بہت سی خرابیاں پیدا ہوتی ہیں : ایک کوتاہی یہ ہے کہ اکثر بلکہ قریب قریب کل ہی مواقع میں ۔ُمتناکحین (نکاح کرنے والے جوڑے) کی مرضی حاصل نہیں کی جاتی، تعجب ہے کہ