اصلاح انقلاب امت - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
چناںچہ ظاہر ہے، بلکہ وہ تو اس میں بالعکس مضر ہے، چناںچہ تجربہ شاہد ہے کہ اگر عورتوں کو علمِ دین وحالِ باطنی (طریقۂ ضروریاتِ دین و حالاتِ اہل اللہ پر عبور) ہوچکا اور وقتاً فوقتاً ان ناقصات العقل (کم عقل رکھنے والیوں) کے اقوال و افعال پر روک ٹوک کرتے رہنا ہے، تو ان بے ہودہ اقوال میں سے ایک قول زبان پر تو کیا قلب میں بھی نہ آنے پائے، اور یوں حزنِ طبعی ہونا عجیب نہیں، تو اگر اس میں اعتدال ہوتو موجب ِاجر ہے، اور صبر کرنے سے بہ تدریج (آہستہ آہستہ) خود سکون بھی ہوجاتا ہے۔ اور اَمرِ ثانی کے متعلق وہ بات یہ ہے کہ حالتِ موجودہ میں بدون اضطرارِ شدید (بغیر سخت ضرورت) کے جس کا فیصلہ نفس سے نہ کرانا چاہیے، بلکہ عقل سے کرانا چاہیے، بلکہ۔ُ عقلا کے مشورے سے کرانا چاہیے، بدون اضطرار کے ہر گز نکاحِ ثانی نہ کرنا چاہیے، خصوص پختگیٔ ۔ِسن کے بعد کہ منکوحۂ اولیٰ کے بعد بے فکر ہوچکنے کے فکر میں ڈالنا ہے، اور جہل اس کا لازمِ حال ہے، وہ اپنا رنگ لائے اور اس رنگ کے چھینٹے سے نہ ناکح بچے گا منکوحۂ ثانیہ بچے گی، خواہ مخواہ دریائے غم میں بلکہ دریائے خون میں سب غوطے لگائیں گے، خصوصاً جب کہ مرد بھی عالم اور متحمل نہ ہو۔ازواجِ متعددہ والے عموماً ظلم و ستم کے معاصی میں مبتلا ہیں : علم نہ ہونے سے وہ حدودِ عدل کو نہ سمجھ سکے گا، اور تحمل نہ ہونے سے ان حدود کی حفاظت نہ کرسکے گا، اس وجہ سے وہ ضرور ظلم میں مبتلا ہوگا، چناںچہ عموماً ازواجِ متعد۔ّدہ (کئی بیویوں) والے ۔َجور (ظلم وستم ) کے معاصی میں مبتلا ہیں، کیوںکہ حقوق اس تعد۔ّد (ایک سے زیادہ ہونے) کے اس قدر نازک ہیں کہ ہر ایک کا نہ وہاں ذہن پہنچ سکتا ہے اور نہ اُن کی رعایت کا حوصلہ ہوسکتا ہے۔تعدد ازواج کی صورت میں باہم عدل رکھنے کے چند فقہی مسائل : چناںچہ باوجودیکہ شب کو رہنے میں اور ملبوس وماکول (لباس اور کھانے پینے) میں برابر رکھنے کاوجوب (واجب ہونا) سب جانتے ہی ہیں، مگر اس تک کا اہتمام نہیں، باقی ان مسائل کا تو کون خیال کرتا ہے کہ ۔ُفقہا نے لکھا ہے کہ اگر ایک بی بی کے پاس بعد مغرب آجاتا ہے اور دوسری کے پاس بعد عشاء تو اس نے عدل کے خلاف کیا، اور لکھا ہے کہ ہر ایک کی باری میں دوسری سے صحبت جائز نہیں، اگرچہ دن ہی ہو، اور لکھا ہے کہ ہر ایک کی باری میں دوسری کے پاس جانا بھی نہ چاہیے، اور لکھا ہے کہ اگر مرد بیمار ہوگیا ور اس وجہ