اصلاح انقلاب امت - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
ارزاں نسخہ فدیے کا یاد کرکے اس کے استعمال کو کافی سمجھتے ہیں۔ سو سمجھ لینا چاہیے کہ قدرت یا اُمیدِ قدرت ہوتے ہوئے فدیہ دینا درست نہیں ہوتا، پس نماز پر تو انسان ہر وقت قادر ہے، اگر رُکوع وسجود نہ ہوسکے، اشارہ ممکن ہے، پس مرض میں بھی وقتیہ کو ادا اور فائتہ کو قضا کرسکتاہے، اس کا فدیہ تو اس لیے جائز نہیں رہا، روزہ تو جب تک صحت کی اُمید ہے، بعد صحت کے بہ قدر زمانہ صحت اس پر قضا کرنا واجب ہوگا۔ البتہ اگر ایسا مرض ہوگیا کہ اب بالکل اُمید صحت کی نہیں رہی، یا ایسا بوڑھا ہوگیا کہ اب بالکل اُمید قوت کی نہیں رہی، یا کسی نے عمر بھر روزہ رکھنے کی نذر کرلی تھی، مگر اب اس سے بالکل عاجز ہوگیا، حاصل یہ کہ ایسا عذر لازم ہوگیا کہ اب قضا پر قادر ہونے کا قطعاً احتمال نہیں رہا، ان حالات میں حیات میں بھی روزے کا فدیہ دینا جائز اور کافی ہے۔ (ردّ المحتار: ۲/۱۹۱) اور اس کا مقتضا یہ ہے کہ اگر قضا نمازیں بہت کثرت سے ہوگئیں اور مرض کی ایسی حالت ہوکہ اشارے سے بھی زیادہ قضا نہیں پڑھ سکتا اور اُمید صحت کی منقطع ہوگئی تو بہ قدر قدرت قضا کرنا واجب ہوگا، اور بقیہ کا فدیہ حیات میں بھی دینا درست ہوگا۔ (لکن لم أراہ فلیراجع)زندگی میں جوازِ فدیہ کی صورت : اور جو نمازیں اور روزے قضا اور فدیے سے رہ جائیں، ان کے فدیے کے لیے وصیت کرنا واجب ہوگا، البتہ اگر نا اُمیدی کے قبل بھی اس نظریے سے فدیہ دے دے کہ معلوم نہیں میرے ورثاء وصیت پر عمل کریں یا نہ کریں، اور یہ بھی نیت رکھے کہ بعد فدیے کے اگر قدرت قضا کی ہوگئی، تو قضا کروں گا اور اگر قدرت نہ ہوئی اور مسائلِ بالا کی رُوسے جس مقدارِ فدیہ کا ناکافی ہونا ثابت ہوگا، وصیت بھی کردوں گا، ایسے فدیے کا کچھ مضایقہ نہیں بلکہ مستحسن اور احتیاط ہے، بشرطے کہ اگر مرض الموت میں ہوتو ثلث سے زیادہ نہ دے۔ اور قضا سے نا اُمید ہونے کی حالت میں جو روزے کے فدیے کا جواز اُوپر مذکور ہوا ہے اس میں ایک اور بھی شرط ہے وہ یہ کہ یہ روزہ کسی اور واجب کا بدل نہ ہو، ورنہ اس میں یا اصل واجب کو ادا کرے، اور وہ نہ ہوسکا تو صرف وجوبِ وصیت متعین ہے، فدیہ کسی حال میں نہیں ہوسکتا، جیسا کفارئہ یمین میں روزہ اُس وقت ہوتا ہے جب اِعتاق و اِطعام و ۔ِکسوت پر قدرت نہ ہو، پس اس روزے کا فدیہ حیات میں درست نہیں، اگر اصل اور بدل دونوںپر قدرت نہ ہو تو مرتے وقت ترکہ میں فدیہ کی وصیت واجب ہوگی۔(ردّ المحتار:۱/۱۹۱)