اصلاح انقلاب امت - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
پھر اس میں بھی مطلقاً معافی نہیں،بلکہ یہ تفصیل ہے کہ اگر چھ نمازیں متصل بے ہوشی میں گزر جائیں تب تو بالکل معاف ہیں، یعنی نہ ادا، نہ قضا، اور اگر اس سے کم بے ہوشی ہوئی ہے، مثلاً: چار نمازیں یا پانچ نمازیں اس حال میں گزر گئیں تو اس وقت توا دا کا مکلف نہیں، مگر ہوش میں آنے کے بعد ان کی قضا واجب ہوگی، اور اگر قضا میں سستی کی تو فدیہ کی وصیت مرتے وقت واجب ہوگی، اور اگر وصیت میں بھی غفلت ہوئی تو وارث کو ثواب ہوگا اگر فدیہ ادا کردیا، لیکن اس صورت میں اپنے حصے میں سے ادا کرے، مشترکہ ترکہ سے ادا نہ کرے۔وضو اور قیام کی قدرت ہوتے ہوئے تیمم سے اور بیٹھ کر نماز نہیں ہوتی : بعضے مریض یہ کوتاہی کرتے ہیں کہ باوجودے کہ وضو سے کوئی ضرر نہیں پھر تیمم کرلیتے ہیں۔ بعض دفعہ اُوپر کے لوگ وضو سے روکتے ہیں کہ ’’میاں! تیمم کرلو، شرع میں آسانی ہے۔‘‘ اسی طرح بعض دفعہ باوجود قدرت علی القیام بیٹھ کر نماز پڑھ لیتے ہیں۔ بعض دفعہ نماز ہی میں باوجود قدرتِ ضبط کے غایت کم ہمتی سے کراہتے ہیں، ’’آہ، آہ‘‘ خوب صاف لفظوں سے کہتے ہیں اور اس کی پروا ہی نہیں کرتے کہ ہماری نماز رہے گی یا جائے گی؟ سو خوب سمجھ لینا چاہیے کہ مطلق مرض سے تیمم یا قعود کی اجازت نہیں، اس میں ابوابِ فقہ کی تحقیق کرنا ضروری ہے، اسی طرح قدرتِ ضبط ہوتے ہوئے ’’آہ‘‘ یا ’’ہائے‘‘ وغیرہ کرنے سے نماز جاتی رہتی ہے، نماز بڑی احتیاط کی چیز ہے، اس کو بے کار نہ سمجھئے۔ بعضے ان ظاہری بے احتیاطیوں کے مقابل ایک دقیق بے احتیاطی کرتے ہیں، جو ظاہراً ان کے زعم میں بڑا تقویٰ ہے، وہ یہ کہ خواہ ان پر کچھ ہی مصیبت گزر جاوے، خواہ کیسا ہی مرض بڑھ جاوے اورخواہ مرہی جاویں، مگر تیمم جانتے ہی نہیں، مریں گے، کہیں گے، مگر وضو ہی کریں گے، سو حقیقت میں اس غلو کے معنی یہ ہیں کہ حق تعالیٰ نے ایسا حکم دیا ہے جو واقع میں ناقص ہے، اس لیے ہم اس کو قبول نہیں کرتے۔ اصل میں شیطان کی مردودیت1 کا مبنیٰ اس کا یہی خیال ہے کہ یہ حکم حق تعالیٰ کا نامناسب ہونے کے سبب قابل ِعمل نہیں، یہ معصیت تو اس کے عقیدے کے ہوئی، اور اگر اس کو کوئی ضررِ شدید پہنچا تو اِہلاکِ نفس سے معصیتِ عملی ہوگی، خوب فرمایا ہے: بزہدو ورع کوش وصدق وصفا ولیکن مہ یفزائے بر مصطفی ’’وَلَیْسَ مِنَ البَرِّ الصِّیَامُ فِي السَّفَرِ‘‘ اور دوسری حدیثیں بھی اس کی صاف اد۔ّلہ ہیں۔ یہ کوتاہیاں تو نماز کے متعلق تھیں۔