اصلاح انقلاب امت - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
اپنے لڑکوںکو نماز کا حکم دو جب وہ سات برس کے ہوجائیں، اور جب وہ دس برس کی عمر کو پہنچ جائیں، تو ان کو مارو نماز نہ پڑھنے پر۔ یہ سب نصوص دلالت کررہے ہیں تعلیم وتربیت دونوں کی مطلوبیت پر۔لڑکیوں کو دینی تعلیم دلاناضروری ہے : ایک کوتاہی یہ ہے کہ بعض لوگ لڑکوں کی تعلیم کو تو ضروری سمجھتے ہیں، مگر بیبیوں کی اور لڑکیوں کی تعلیم کو ضروری نہیں سمجھتے، بلکہ تعلیمِِ نسواں کو مضر سمجھتے ہیں، جیسا کہ اس کے مقابلے میں بعض لوگ نسواں (عورتوں) کے لیے تعلیمِ جدید3 کو یا تعلیمِ قدیم کو بہ طرزِ جدید بھی ضروری سمجھتے ہیں، سو اس کی کافی بحث تعلیمِ نسواں کی تحقیق میں اسی رسالے میں گزر چکی4 ہے ضرور ملاحظہ فرمائی جاوے، ان سے ان کوتاہیوں کا اور ان کے تدارک کا اچھی طرح علم ہوجائے گا۔تربیت کی ضرورت تعلیم سے بھی اہم ہے : ایک کوتاہی یہ ہے کہ بعض لوگ تعلیم کو تو سب کے لیے ضروری سمجھتے ہیں، مگر تربیت کو ضروری نہیں سمجھتے، حالاںکہ تربیت کی ضرورت تعلیم سے بھی اہم ہے، تعلیمِ درسی سے تو من کل الوجوہ( ہر اعتبار سے) اور مطلق تعلیم سے من وجہٍ (بعض وجوہ سے)۔ تعلیمِ درسی سے تو اس لیے کہ وہ فرضِ عین نہیں، بہت صحابہؓ علومِ درسیہ سے خالی تھے، مگر ان پر کبھی اس کو لازم نہیں کیا گیا، اور تربیت یعنی تہذیبِ نفس ہر شخص پر فرضِ عین ہے، اور مطلق تعلیم سے اس لیے کہ مقصود تعلیم سے تربیت ہی ہوتی ہے، کیوںکہ تعلیم: علم دینا ہے، اور تربیت: عمل کرانا، اور علم سے مقصود عمل ہی ہے، اور مقصود کا اہم ہونا ظاہر ہے، اور ان سے اعمالِ جوارح (انسانی اعضا سے متعلق اعمالِ صالحہ) کا عقائد سے اہم ہونے کا اشکال لازم نہیں آتا، کیوںکہ عقائد تو خود علومِ مقصودہ بالذات ہیں، اور گفتگو ان علوم میں ہے جو عمل کے لیے مفقود ہیں، اور من وجہٍ (ایک طرح) اس لیے کہاگیا کہ بعض حیثیتوں سے یہ علوم افضل ہیں اعمال سے کہ علم اصل اور بِنا ہے، اور عمل اس کی فرع اور اس پر مبنی، بہرحال تربیت یا تعلیم سے اہم ہے یا اس کے برابر مہم ہی سہی، مگر اس سے قطع نظر کرنے کی، اور ضروری نہ سمجھنے کی تو کسی حال میں گنجایش نہیں۔