اصلاح انقلاب امت - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
دوسری وہ جو اس آیت کا شانِ نزول ہے: {یٰٓاَیُّھَا النَّبِیُّ اِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَآئَ} 2 یعنی اے پیغمبر! (آپ لوگوں سے کہہ دیجیے کہ ) جب تم لوگ (اپنی) عورتوں کو طلاق دینے لگو۔ یعنی حضرت حفصہؓ کو آپﷺ نے ایک طلاق دے دی تھی، پھر بحکمِ الٰہی آپﷺ نے رجعت فرمالی۔ (کذا في الدر المنثور عن أبی حاتم وابن المنذر) چھٹا واقعہ تجدیدِ نکاح کا تھا، اس میں سنت کی موافقت ابھی مذکور ہوئی، کہ حضرت حفصہ ؓ سے بعد طلاق کے رجعت فرمالی تھی۔ ساتواں واقعہ مہر کے خفیف (کم) ہونے کا تھا، اس میں موافقتِ سنت قولاً و عملاً ظاہر ہے۔ غرض اہلِ فہم کو خدا تعالیٰ نے اس طرح سمجھا دیا، میں یہ جھوٹا دعویٰ نہیں کرتا کہ میں نے یہ سب کام اتباعِ سنت کی نیت سے کیے ہیں، بلکہ یہ بھی خدا تعالیٰ کا ایک فضل ہے کہ اضطراراً سنت کی موافقت ہوجائے، جس سے زیادہ برکت کی اُمید ہوتی ہے، چناںچہ اُمید برکت کی مزید تائید دو واقعوں سے اور ہوتی ہے: ایک یہ کہ اس واقعے کی خبر سن کر ایک شیخِ کامل نے جس کا میں نے اُوپر اس عنوان سے ذکر کیا ہے کہ اس وقت افادئہ خلائق میں مشغول ہیں، مجھ کو خط لکھا، اس میں یہ تھا کہ حق تعالیٰ اس عقد کو موجبِ ترقی ٔدرجاتِ سامیہ (بلند درجات کی ترقی کا سبب)فرمائے۔ دوسرا یہ کہ ایک دوسرے شیخِ کامل نے جن کا میں نے اُوپر اس عنوان سے ذکر کیا ہے کہ ظاہری وباطنی افادے میں بفضلہ تعالیٰ مشغول ہیں، میری اس درخواست کے جواب میں کہ اللہ تعالیٰ سے دُعا کیجیے کہ اس میں برکت فرمادیں، یہ فرمایا کہ’’ ہم کو تو برکات کی توقع ہے۔‘‘ بس یہ خلاصہ ہے مضمونِ مشیت اورمصلحتوں کا جس کی بنا ئے کار معلوم ہونا آں عزیز نے لکھا ہے۔حضرت حکیم الاُمت ؒ نے نکاحِ ثانی اولاد ہونے کے خیال سے نہیں کیا : اسی سے آں عزیز کے اس سوال کا جواب بھی نکل آیا، کہ اس زمانے میں جب تمام اعزّہ کی تمنا تھی کہ اولاد ہو اور اس کے سبب سب نے زور دیا کہ نکاحِ ثانی ہوجائے، تو آپ نے نہ مانا، جب اس کی عمر تھی، اور طبعاً اولاد کی خواہش ہوگی، لیکن وہ زمانہ گزر گیا تو اب کیا وقت تھا؟