اصلاح انقلاب امت - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
کیا یہ غضب اور ۔ِستم نہیں ہے کہ ہر زمانے میں ایسوں کی تکفیر ہوئی جن کی برکت سے علومِ اسلامیہ کا اِحیا ہوا، اور جن کے فیض سے برکاتِ دینیہ کا اِلقا ہوا۔کفر کا فتویٰ دینے کے لیے بعض شرائط : اور اگر کسی بزرگ کا کلام مؤوّل نہ ہوسکے تو ا س کی تکفیر سے یہ اَسہل واَسلم ہے کہ اس کلام ہی کی نسبت کا انکار کردیا جائے، اور غلبۂ حال کی تاویل کے ردّ کرنے کے لیے بعض متقشفین عذر کو ان چند عذروں میں سمجھتے ہیں جن کو اُصولیّین نے بہ وجہ کثرتِ وقوع ذکر کردیا ہے، اور اس تخصیصِ ذکری کو تخصیصِ واقعی سمجھ کر دوسرے عذروں کی نفی ہی کردی، حالاںکہ ان میں عذر منحصر نہ ہونا خود ۔ُفقہا ہی کے کلام میں ۔ّمصرح ہے: في ’’العالمکیریہ‘‘: ’’أحکام المرتدین‘‘: من أصابہ بِرْسام أو أطعم ’’عالمگیری‘‘ ’’احکام المرتدین‘‘ میں ہے: جسے سرسام کی بیماری پہنچی، یا اس نے کسی چیز کو کھالیا شیئا، فذہب عقلہ فہذی فارتد، لم یکن ذلک ارتدادا، وکذا لو کان معتوہًا أو موسوسًا أو مغلوبًا علی عقلہ بوجہ من الوجوہ، فہو علی ہذا۔ کذا في ’’السراج الوہاج‘‘۔ جس کے بعد اس کی عقل چلی گئی، پھر اس نے کچھ بکواس کی، پھر وہ مرتد ہوا یہ اس کا ارتداد نہیں ہوگا، اور اسی طرح اگر کوئی شخص کم عقل (پاگل) ہے ، یا کسی وجہ سے مغلوب العقل یا وسوسہ والا ہے تو وہ بھی اسی حکم میں ہے جیساکہ ’’سراج وہاج‘‘ میں ہے۔ اس عبارت میں ’’بوجہ من الوجوہ‘‘ قابلِ نظر ہے۔ وفي ’’مدارج السالکین‘‘ لابن القیم :(۱؍۱۱۴) تحت حدیث قصۃ القائل: ’’أنا عبدک، وأنت ربي‘‘۔ وفي الحدیث من قواعد العلم: أن اللفظ الذي یجري علی لسان العبد خطأ من فرح شدید أو غیظ شدید ونحوہ لا یؤاخذ بہ، ولہذا لم یکن کافرا بقولہ: أنت عبدي، وأنا ربک، ومعلوم أن تاثیر الغضب في عدم القصد یصل إلی ہذا الحال أو أعظم منہا۔ ابنِ قیم سے ’’مدارج السالکین‘‘(۱؍۱۱۴) ’’أنا عبدک وأنت ربي‘‘ کے قائل کے قصے میں مرقوم ہے کہ قواعدِ علم سے یہ بات ہے کہ