اصلاح انقلاب امت - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
کرنے) کی نہیں، ایسے موقع پر تو بجائے ترغیبِ معافی (معاف کرنے کی رغبت دلانے) کے معاف نہ کرنے کی رائے دینا مناسب ہے۔زوجہ متوفیہ کی اولاد کے حصے میں زوج کو تصرف کرنا حرام ہے : ایک کوتاہی مہر کے بارے میں یہ ہے کہ اگر زوجہ متو۔ّفیہ (فوت شدہ بیوی) کے ورثا اس کے ماں باپ یا بھائی وغیرہ ہوتے ہوں تب تو ان کے مطالبے پر زوج ان کا حصۂ مہر دے دیتا ہے، اور اگر خود اسی زوج کی اولاد وارث ہوئی تو چوںکہ وہ مطالبہ کر نہیں سکتے یہ اُن کا حق ادا نہیں کرتا۔ یہ فعل سراسر ظلم اور خیانت ہے، ان کا حق امانت ہے، اس اولاد کے نام سے جمع رکھنا چاہیے۔ اور خاص ان کے مصالح میں ۔َصرف کرنا چاہیے، خود دست ۔ُبرد کرنا (خرچ کرنا) حرام ہے۔ اسی طرح اُن بچوں کو جوچیزیں ماں سے میراث میں پہنچی ہوں ان سب کی حفاظت اس کے ذ۔ّمے فرض ہے، اس میں بے جا تصر۔ّف (بلا وجہ خرچ کرنا)حرام ہے۔نکاح یا رُخصت سے قبل مصارفِ شادی کے لیے شوہر سے کچھ لینا حرام ہے : ایک کوتاہی بعض بلاد (علاقوں) میں بابِ مہر میں یہ ہے کہ زوج سے قبل نکاح یا قبل رُخصت کچھ روپیہ اس غرض سے لے لیتے ہیں کہ مصارفِ شادی (شادی کے اخراجات) میں خرچ کریں گے، اور جب اُن کو منع کیا جاتاہے کہ یہ رشوت اور حرام ہے تو یہ تاویل کرتے ہیں کہ’’ہم نے مہر میں لیا ہے۔‘‘ اگر یہ واقعی مہر ہے تو اس کی مالک عورت ہے اور کسی کے مال میں بدون اس کے اِذن بہ ۔ِطیبِ خاطر (بغیر اجازت دل کی رضامندی کے) تصر۔ّف کرنا حرام ہے، سو ان لوگوں نے عورت سے کب پوچھا ہے؟ اور اس نے کب خوشی سے اجازت دی ہے؟ اگر یہ کہا جائے کہ اِذنِ لاحق (بعد میں اجازت دینا) بھی مثل اذنِ سابق (پہلے اجازت دینے) کے ہے اور اِذن دلالتاً بھی مثل اِذن صراحتاً کے ہے (یعنی عرفِ عام کے اعتبار سے جس کو اجازت سمجھا جائے وہ بالکل واضح طور پر اجازت دینے کے مانند ہوتاہے)، تو جواب یہ ہے کہ یہ بالکل مسلّم (تسلیم شدہ) ہے، لیکن اِذن کی حقیقت کا تو پایا جانا ضروری ہے، اور حقیقت اس کی وہاں ہوگی جہاں عدمِ اذن (اجازت نہ دینے) پر بھی قدرت ہے، سو ظاہر ہے کہ یہاں بوجہ اتباعِ رسم کے (رسم ورواج کی پیروی کی وجہ سے) اس کے روکنے یا ا س کا ضمان (جرمانہ) اور بدل لینے کی عورت کو قدرت ہی نہیں، پس اِذن کہاں پایاگیا؟ خلاصہ یہ کہ اگر یہ مہر نہیں تو رشوت ہے اور اگر مہر ہے تو غصب ہے اور دونوں حرام ہیں۔