اصلاح انقلاب امت - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
اس میلان کا جس قدر پہلے تقاضا ہوتا تھا اب اس قدر تقاضا نہ ہوگا کہ بہت تھوڑی توجہ اور ضبط سے وہ میلان دفعہ یا مغلوب ہوجائے گا، اور میرے نزدیک یہی اثر ہے شیاطین کے مقید ہوجانے کارمضان میں کہ قبل رمضان جو نفسانی خواہشیں طبعاً پیدا ہوتی تھیں ان کی اعانت شیاطین بھی کرتے تھے اس لیے تقاضا شدید ہوتا تھا کہ ضبط میں زیادہ مشقت ہوتی تھی، رمضان میں گو ایسی خواہشیں پیدا تو ہو تی ہیں کیوںکہ نفس اور طبیعت قید ہوتے مگر شیاطین چوںکہ قید ہوگئے اس لیے ان کی جانب سے اعانت نہیں ہوتی، تو تقاضا اس قدر نہ ہوگا، اور رُکنا اتنا دُشوار نہ ہوگا، چناںچہ یہ اَمر تجربہ اور مشاہدہ سے دیکھ لیاجائے کہ صحیح ہے، اور اس تقریر سے بعض اِشکالات بھی حل ہوگئے، اور اسی کا ضمیمہ یہ بھی ہے کہ حتی الوسع رمضان میں غذائے حلال کا زیادہ اہتمام رکھے، شرم کی بات ہے کہ حلال سے دن بھر رُکا رہے، اور حرام سے اِفطار کرے۔سحور یعنی سحری اس میں غالباً دو کوتاہیاں ہوتی ہیں: ایک تعجیل کے متعلق، دوسرے تاخیر کے متعلق۔ ۱۔ اوّل کا بیان یہ ہے کہ اکثر لوگ آدھی رات سے سحری کھاکر بیٹھ رہتے ہیں، سو اوّل تو خود اس قدر تعجیل ہی اَمرِ شارع وغرضِ مشروعیتِ سحر کے خلاف ہے، اور وہ غرض یہ ہے کہ مسلمین واہلِ کتاب میں فرق رہے، اور روزے میں قوت وطاقت رہے، اور دوسرے اکثر عوام کا اس کے ساتھ یہ اعتقاد منضم ہوجاتا ہے کہ جب سحری کھاکر روزے کی نیت کرلی یا سوگئے تو اس کے بعد گو رات باقی ہی ہو، مگر اب کھانا پینا جائز نہیں، سو یہ اعتقاد ایک اختراع فی الدین ہے، جس سے توبہ واجب ہے۔ ۲۔ ثانی کا بیان یہ ہے کہ بعضے لوگ خصوصاً جن کے پاس نقشے اور گھڑیاں بھی ہیں، اس قدر تاخیر کرتے ہیں کہ بعض اوقات یہ اشتباہ قوی ہوجاتاہے کہیں صبحِ صادق کے بعد تو نہیں کھایا گیا، اس قدرمبالغہ ضرور بے احتیاطی ہے، حدیث متفق علیہ کَالرَّاعِيْ یَرْعَی حَوْلَ الْحِمَی یُوْشِکُ أَنْ یَرْتَعَ فِیْہِ اس سے صاف روک رہی ہے، اسی طرح گھڑیوں پر اتنا اعتماد کہ اس کی بنا پر اتنے بڑے فرضِ الٰہی کوخطرے میں ڈالنے پر اقدام کربیٹھے، جسارتِ عظیمہ ہے، اور تجربے کے بھی خلاف ہے، کیوںکہ ہزاروں واقعات بڑی بڑی قیمتی گھڑیوں کی غلطی نکلنے پر شاہد ہیں۔ اسی طرح ا س کے مقابل بعض کا ۔ّتشدد کہ گھڑی ہی کو بدعت کہتے ہیں، اور نماز روزے میں اس کے حساب کو کسی درجے