اصلاح انقلاب امت - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
کہ کوئی حصہ سستا مل جائے، گو اس میں کچھ عیب بھی ہو مگر ایسا نہ ہو جو مانعِ جوازِ قربانی ہو، اور وجہ اس کی دو ہیں: ایک بخل، جس کا علاج اُوپر گزرچکا ہے، اور دوسرے یہ خیالِ غیر واقعی کہ قیمت کے بڑھنے سے یا مال کے عمدہ ہونے سے ثواب میںزیادتی نہ ہوگی بلکہ ایک حصے میں جس قدر ثواب ہوتاہے وہ قانون حال میں برابر ہوگا، اگر زیادتی بھی ہوئی تو ہم زیادتی کو کیا کریں گے؟پس اتنا ہی کافی ہے کہ براء تِ ذ۔ّمہ حاصل ہوجائے ۔اس کی اصلاح یہ ہے کہ یہ خیال بالکل غلط ہے، بلکہ جس قدر مال عمدہ ہویا قیمت زیادہ ہوگی تو ثواب زائد ہوتا جائے گا، { لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتّٰی تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَط}1 تم اُس وقت تک نیکی حاصل نہیں کرسکتے جب تک اپنے محبوب اموال میں سے خرچ نہ کرو۔ یعنی: اور {وَلَا تَیَمَّمُوا الْخَبِیْثَ مِنْہُ تُنْفِقُوْنَ وَلَسْتُمْ بِاٰخِذِیْہِ اِلَّآ اَنْ تُغْمِضُوْا فِیْہِط} 2 (یعنی اللہ کی راہ میں خرچ کرتے وقت خراب مال دینے کا قصد نہ کرو کہ اس سے خرچ اور (جب کبھی لینے کا موقع ہو تو) تم اسے لینے والے نہیں ہو، ا۔ّلا یہ کہ چشم پوشی سے کام لو) اور حدیث: سَمِّنُوْا ضَحَایَاکُمْ (اپنے قربانی کے جانوروں کو فربہ کرو)۔ اور حضرت عمرؓ کا قصہ ہے کہ ایک اُونٹنی ذبح کی تھی جس کے تین سو دینار ان کو ملتے تھے۔1 یہ سب دلائل واضح ہیں اس دعویٰ کے۔ اور یہ خیال کہ ہم زیادتی کو کیا کریں گے، صرف براء تِ ذ۔ّمہ کافی ہے، اس کا محل وہاں ہوسکتا ہے جہاں صرف مواخذہ سے بچنا ہو، اور اس حاکم سے کوئی خاص تعلق نہ ہو، نہ خاص تعلق پیدا کرنا مقصود ہو، کیا حق جل وعلا شانہ کے تعلقات کے باوجود یا مطلوبیتِ حصول کا کسی کو انکار ہوسکتا ہے؟ اگر نہیں ہوسکتا تو اس خیال کی گنجایش کہاں رہی؟حقوق العباد چھوڑ کر قربانی کرنا : ایک کوتاہی یہ ہے کہ بعض لوگ محض نادار ہیں یا ذخیرہ سے زیادہ ان کے ذ۔ّمہ حقوق العباد ہیں، جن کا ادا و ایفا فرضِ ۔ّمقدم ہے، مگر یہ لوگ ان سب حقوق کو نظر انداز اور پشت افگندہ کرکے محض فخر اور وضعِ قدیم نباہنے کے لیے قربانی کی پابندی کرتے ہیں، اور پاس نہیں ہوتا تو اُدھار کرتے ہیں۔ بعض کو دیکھا ہے کہ متعد۔ّد۔ِ حصص ۔ُمردوں تک کے کرتے ہیں اور زندوں کے واجب حقوق کو ۔ُمردہ کرتے ہیں، حالاںکہ یقینی بات ہے کہ دس روپیہ قرض میں ادا کرنا اس سے بہتر ہے کہ ان کے دس روپے کے حصے خریدے جائیں، تو اضاعتِ حقوق کا الزام الگ اور فسادِ نیت یعنی ۔َتفاخر وتر۔َُفع کا الگ۔