اصلاح انقلاب امت - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
کہنے سے اگرچہ اس میں نیت طلاق کی بھی کی ہو، طلاق واقع نہ ہوگی، درِّ مختار میںتصریح ہے: وَلَا تَقَعُ بِہِ (أَيْ بِقَوْلِہِ: اِخْتَارِيْ) وَلَا ’’بِأَمْرُکِ بِیَدِکِ‘‘ مَا لَمْ تُطَلِّقِ الْمَرْأَۃُ نَفْسَہَا کَمَا یَأْتِيْ۔ یعنی خاوند نے بیوی سے کہا کہ ’’تجھے اختیار ہے‘‘ یا ’’تیرا معاملہ تیرے ہاتھ میں ہے‘‘ تو اس کہنے سے طلاق واقع نہیں ہوگی، جب تک کہ عورت نے اپنے آپ کو طلاق نہ دی ہو، جیسا کہ آگے آرہا ہے۔ ردّ المحتار میں ہے: قَوَلُہُ: مَا لَمْ تُطَلَّقْ أَيْ مَعَ نِیَّۃِ الزَّوْجِ الطَّلَاقِ، أَوْ دَلَالَۃِ الْحَالِ؛ لِأَنَّ ذَلِکَ کِنَایَۃُ تَفْوِیْضٍ لَا کِنَایَۃُ إِیْقَاعٍ، کَمَا یَأْتِيْ فِي الْبَابِ الْآتِيْ۔ قُلْتُ: مَا أَلْطَفَ تَعْلِیْلُہُ بِقَوْلِـہِ: لِأَنَّ ذَلِکَ کِنَایَۃُ تَفْوِیْضٍ۔۔۔۔ إلَخْ۔ جب تک عورت نے خاوند کی نیتِ طلاق یا دلالتِ حال کے ساتھ اپنے آپ کو طلاق نہ دی ہو، کیوںکہ یہ سپرد کرنے کا کنایہ ہے واقع کرنے کا کنایہ نہیں، جیسا آگے آتا ہے۔ میںکہتا ہوں کہ کس قدر طلاق کی وجہ بیان کرنے میں لطافت پیدا کردی۔غائبانہ طلاق بھی واقع ہوجاتی ہے : ایک غلطی یہ ہے کہ بعضے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ جب تک عورت سامنے نہ ہو طلاق واقع نہیں ہوتی، سو یہ بھی غلط ہے، غائبانہ طلاق بھی واقع ہوجاتی ہے۔لفظِ’’طلاق‘‘ صحیح مخرج سے ادا نہ ہو تب بھی طلاق واقع ہوجاتی ہے : بعضے لکھے پڑھے لوگوں نے ایک جہالت کی کہ طلاق دینے والے کو یہ فتویٰ دیا کہ تونے طلاق میںحرف ’’طا‘‘ کا مخرج سے ادا نہیں کیا، بلکہ بجائے اس کے حرف ’’تا‘‘ فوقانیہ سے کہا، اس لیے طلاق واقع نہیں ہوئی، سو ۔ُفقہا نے تصریحاً غلط حرف سے طلاق واقع ہوجانے کو لکھا ہے۔رنجش کی بنا پر بیوی کے ناجائز طور پر بیٹھنے سے طلاق واقع نہیں ہوتی : ایک غلطی اِس باب میں