اصلاح انقلاب امت - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
سمجھ میں نہیں آتا، اور بے سمجھے لایعنی سوال کرکے دوسروں کوپریشان کرتاہے، اور اپنے فہم کا قصور، فہم میں نہیں آتا۔ اور جواب دینے والوں کو جواب سے عاجز سمجھ کر ان کے علم یا اخلاق میں تنگی کا حکم لگاکر ان سے بدگمان ہوجاتاہے۔ اور بھی انواعِ مفاسد پیدا ہوجاتے ہیں۔عالمِِ دین کی ضرورت : ان سب کا انسداد یہ ہے کہ کوئی کتاب ، کوئی رسالہ، کوئی تقریر تاوقتے کہ کسی محقق عالم کو نہ دکھائیں اور اس سے رائے نہ لیں، ہر گز نہ دیکھیں۔ اخبارات کے بعض مفاسد اس قسم کے احقر نے ایک مستقل تحریر مسمّٰی بہ ’’اخبار بینی‘‘ میں ایک زمانے میں لکھے تھے، جس پر بلا تد۔ّبر بعض معترضین نے غل مچایا، مگر وہ تحریر بغور پڑھنے کے قابل ہے، اُس سے یااِس سے یہ ہرگز مقصود نہیں کہ کسی اخبار یا کسی کتاب کا مطالعہ ہر حالت میں حرام ہے۔ مقصود صرف یہ ہے کہ چوں کہ ان چیزوں میں بعض اوقات ایسے مفاسد ہوتے ہیں، اور ان مفاسد سے بچنا ملتِ اسلامیہ میں واجب ہے، اور بچنا بدون معرفت یعنی عالمِ محقق سے مشورہ لے کر اس کا اِتباع ضروری ہوگا۔ افسوس ہے کہ باوجود وضوح اس اَمر کے پھر اس ممانعت کو تنگ خیالی وتعصب پر محمول فرمایا جاتاہے، کیا کوئی خیر خواہ باپ اپنے بچے کو زہر ملی ہوئی مٹھائی کے کھانے سے روکے، کوئی عاقل اس باپ کو متعصب یا تنگ خیال کا لقب دے گا؟ یا غایتِ رافت کے ساتھ اس کومتصف کہے گا؟ اور اگر کوئی کہے کہ ہم ’’خذ ما صفا ودع ما کدر‘‘ (اچھی چیز کو لے لو اور ۔ُبری چیز کو چھوڑدو) کے طور پر اس کو دیکھتے ہیں۔ سو اس کا جواب اُوپر کی تقریر سے واضح ہوگیا ہے کہ اس امتیاز کے لیے علمِ کامل و فہمِ وافی کی حاجت ہے، اور کلام اس کے فاقد1 میں ہے، رہا کسی کا اپنے کو فاقد نہ سمجھنا، یہ معتبر نہیں، بلکہ کسی عالم ماہر کا کسی کو فاقدکہنا اس کے اثبات کے لیے کافی ہے۔تورات کے مطالعہ سے ممانعت : اور یہی وجہ ہے کہ جنابِ رسولِ کریم و نبیٔ حکیم ﷺ نے حضرت عمر ؓ جیسے راسخ العلم والعمل شخص کو تورات کے مطالعے سے منع فرمایا، باوجودے کہ وہ فی نفسہٖ آسمانی کتاب تھی، گو اس میں تحریف بھی ہوگئی تھی اورپھر مطالعہ بھی تنہا نہ تھا بلکہ خود حضورِ پر نورﷺ کو سنارہے تھے، اور اس میں جزوِ ۔ّمحرف کا معیّن ومبیّن ہوجانا ظاہر تھا، اس کے