اصلاح انقلاب امت - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
ہے تو قدرتی انتظام اس کی اصلاح کا یہ ہوا کہ اس کے دلائل کا عدد بھی مضاعف ہوگیا، کیوںکہ تکثیرِ دلائل سے تنبیہ کا زیادہ ہونا امرِ طبعی ہے، اور یہ محض نکتہ ہے، پس اس پر شبہ نہ کیا جاوے کہ پھر حقوقِ شرکائے تعلّم کے دلائل میں اس سے بھی تضاعف ہونا چاہیے، سو اوّل تو یہ نکتہ ہے، اس کا اطراد ضروری نہیں، دوسرے جتنے تعلقات اُستاد و شاگرد کے قوی ہیں اتنی قوت اس حقِ اخیر کو ہے بھی نہیں، تو حقِ اقویٰ زیادہ اَحق ہے زیادت تنبیہ کا، اور ہرچند کہ بعد سوقِ احادیث مثل بابِ اوّل یعنی بیان حقوقِ معلم یہاں بھی واقعاتِ جزئیہ کے طرز پر کچھ مضمون ہونا چاہیے تھا، چناںچہ اس بابِ ثانی کے اوّل میں اس کا وعدہ بھی ہے اور اس وقت ارادہ بھی تھا، لیکن اتفاق سے جو کچھ اس کے ضمن میں لکھتا وہ بذیل احادیثِ مذکورہ مذکور ہوچکا، اس لیے اس بابِ ثانی کو ختم کرکے اب بابِ ثالث یعنی حقوقِ شرکا فی التعلیم کے متعلق بہ قدرِ ضرورت عرض کرتاہوں اور عجب نہیں کہ اس میں بھی سوقِ دلائل اور اس کے ضمن میں واقعات کا آجانا کافی ہوجاوے۔ (والدلائل ہذا)ساتھیوں کے حقوق آیت۱: قَالَ اللّٰہُ تَعَالٰی: {وَعْبُدُوْا اللّٰہَ} (إلی قولہ) {وَالصَّاحِبِ بِالْجَنْبِم} الآیۃ۔ عبادت کرو اللہ کی اور ا س کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو اور ماں باپ کے ساتھ احسان کرو اور اپنے قرابتیوں اور یتیموں اور فقیروں اور قرابتی ہمسایہ اور اجنبی ہمسایہ اور جو تمہارا ہم صحبت پاس بیٹھنے والا ہو، ان سب کے ساتھ احسان کرو۔ اس آیت سے شرکائے تعلّم کا حق دو طرح ثابت ہوتاہے: ایک اس لفظ سے: والجار الجنب اور دوسرا اس لفظ سے : والصاحب بالجنب کیوںکہ اس کا جار ہونا بھی ظاہر ہے اور صاحب بالجنب ہونا بھی ظاہر ہے، چناںچہ مفسرین نے شریک فی التعلم کے ساتھ اس کی تفسیر بھی کی ہے۔