اصلاح انقلاب امت - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
علما کا دستور العمل : اب ۔ُعلمائے احکام کا دستور العمل باقی رہا، اس کا خلاصہ یہ ہے کہ وہ وقتاً فوقتاً اس میں ساعی رہیں کہ ناواقفوں تک احکام پہنچائیں، اور اس کی یہ صورتیں ہیں: ۱۔ درس (گو بہ عوض ہو) اس میں علومِ ضروریہ کو۔ّمقدم اور مہتم بالشان رکھیں، دینیات سے حتی الامکان طالبِ علم کو پہلے فارغ کردیں، اگر طالب علم دینی مختصرات یا اردو کے رسائل بھی پڑھے، اور اپنے پاس وقت ہو، تو ہرگز اس کے درس کو خلافِ شان نہ سمجھے، طالب علم کے فضول سوال پر اس کو۔ّمتنبہ کرے، جواب نہ دے۔ ۲۔ دوسری صورت وعظ ہے، جس میں خطاب عام ہے، اس میں ضرورتِ وقت کا لحاظ رکھیں، جن اُمور میں لوگ اس زمانے میں مبتلا ہوں یا جن ضروریات میں فرو۔ُگزاشت کرتے ہوں، مدارِ بیان اس پر رکھے، دوسرے مضامین اگر ہوںتو بالتّبع اور بَقِلَّت ہوں، اور یہ ضروری مضامین جمیع ابواب کے ہوں، صرف عقائد و دیانات پر اقتصار نہ کرے، بلکہ معاملات ومعاشرات واخلاق سے بھی مشبّع بحث کرے، بلکہ بہ وجہ متروک ہونے کے یہ ثلاثۂ اخیرہ زیادہ اہم ہوگئے ہیں، اور وعظ میں بات صاف کہے کہ سننے والوں کی سمجھ میں خوب آجائے، مگر خشونت اور اشتعال انگیز طرز سے بچے، اور وعظ پر عوض نہ لے، البتہ اگر وعظ کا نوکر ہو، وہ اور بات ہے۔ ۳۔ تیسری صورت جواب ہے استفتاکا، خواہ زبانی سوال ہو یا تحریری ہو، اس میں ان اُمور کا لحاظ رکھے: ۱۔ حتی الامکان جواب میں تو۔ّقف نہ کرے۔ ۲۔ لایعنی سوال کا جواب نہ دے، بلکہ سائل کو تنبیہ کرے۔ ۳۔ اگرسوال محتمل دو صورتوں کو ہو تو تشقیق سے جواب نہ دے، کیوںکہ بعض اوقات سائل دونوں شقوں کا حکم سن کر ایک شق کو اپنے لیے مفید مطلب سمجھ کر سوال میں اُسی کا دعویٰ کرنے لگتا ہے، جس کی وجہ سے سائل کا یا اس کے مقابل کا ضررِ دینی یا دنیوی ہوجاتاہے۔ ۴۔ عامی کو دلیل بتانے کا التزام نہ کرے کہ اکثر اس کے فہم سے خارج ہوگی۔ ۵۔ ہاں! دوسرے ۔ُعلمائے مصلحین کی سہولت کے لیے اگر دلیل کی طرف اشارہ کردے، یا کوئی عبارت بلا ترجمہ نقل کردے، مستحسن ہے۔ ۶۔ اگر قرائن سے معلوم ہو کہ سائلِ غائب اس تحریری جواب کو اچھی طرح نہ سمجھے گا، یا سمجھنے میں غلطی کرے گا، جواب لکھ کر لکھ دے کہ کسی عالم سے اس جواب کو زبانی حل کرے۔