اصلاح انقلاب امت - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
نا ۔َمحرم مرد کو مرنے کے بعد بھی دیکھنا جائز نہیں : ایک بے احتیاطی یہ ہوتی ہے کہ اس وقت اکثر نا۔َمحرم عورتیں بھی اس کے سامنے آکھڑی ہوتی ہیں، گویا پردہ ضروری نہیں رہتا، سو اگر اس کو اتنا ہوش ہے کہ وہ دیکھتا سمجھتا ہے تب تو اس کے سامنے آنا ایسا ہے جیسا تن درست کے سامنے آنا، مرض سے احکام معاف نہیں ہوگئے۔ اور اگر اس کو اتنا ہوش نہیں ہے تو بہت سے بہت اس نے نہ دیکھا، مگر ان عورتوں نے اس نا ۔َمحرم مرد کو بلا ضرورت دیکھا جس کی ممانعت حدیث: أَفَعَمْیَاوَانِ أَنْتُمَا أَلَسْتُمَا تُبْصِرَانِہِ (کیا تم دونوں بھی اندھی ہو؟ کیا تم دونوں اسے نہیں دیکھ رہیں؟) مصرح ہے۔ اور اگر کہا جاوے کہ اس وقت تو کسی مفسدے کا احتمال نہیں ہے، سو جواب یہ ہے کہ اوّل تو حکم عام ہے، مفسدے کی قید نہیں ہے، دوسرے ہم نے مفسدہ بھی دیکھا، بعض عورتیں اس وقت دیکھ کر عاشق ہوگئی ہیں اور عمر بھر خیالاتِ نجس میں مبتلا رہی ہیں، گو ان کے ایقاع کی گنجایش نہیں رہی، تو اَلْعَیْنَانِ تَزْنِیَانِ (آنکھیں بھی زنا کرتی ہیں) اور اَلْقَلْبُ یَزْنِيْ تو صادق آگیا۔اگر عورت مرتے وقت شوہر کو مہر معاف کردے تو اس کا اعتبار نہیں ہوتا : ایک کوتاہی جو نہایت عام ہے کہ جب کوئی عورت مرنے لگتی ہے، کہتے ہیں کہ ’’شوہر کو مہر معاف کردے۔‘‘ اور وہ معاف کردیتی ہے اور شوہر اس معافی کو کافی سمجھ کر اپنے کو دَینِ مہر سے سبک دوش سمجھتا ہے اور اگر کوئی وارث مانگے بھی تو نہیں دیتا اور نہ اس کا دینا ضروری سمجھتا ہے۔ سو خوب سمجھ لیا جاوے کہ اس وقت کی معافی وصیت ہے اور وصیت وارث کے حق میں نافذ نہیں ہوتی، جب تک کہ سب ورثا بلوغ بہ شرطِ بلوغ اس کو منظور نہ کریں۔ اور اگر بعض جائز رکھیں، بعض نہ رکھیں، تو صرف جائز رکھنے والوں کے حصے کے قدر نافذ ہوگی، باقی باطل ہوگی۔ اور نابالغ تو اگر جائز بھی رکھیں تو صحیح نہیں۔ پس اس صورت میں جو وارث نابالغ ہیں ان کے حصے کا مہر، اسی طرح جو بالغ وارث جائز نہ رکھیں ان کے حصے کا مہر بھی واجب الادا ہوگا اور وہ معافی ان کے حق میں محض باطل ہے۔ مثلاً: اس عورت کے وارث علاوہ شوہر کے تین بھائی ہیں، ایک نابالغ اور دو بالغ، جن میں سے ایک نے اس معافی کو منظور کیا اور دوسرے نے نامنظور کیا اور مہر چھ سو روپے تھا تو اس صورت میں یہ حکم ہوگا کہ تین سو تو حصۂ شوہری میں اگر معاف ہوگئے اور سو روپے بالغ منظور کرنے والے کے حصے میں آکر معاف ہوگئے، آگے دو سو روپے