اصلاح انقلاب امت - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
ہو تو مرد پر واجب نہیں کہ اس کو اطلاع کرے، بلکہ یہی سمجھے کہ طلاق واقع نہیں ہوئی۔بلا قصور بھی طلاق واقع ہوجاتی ہے : ایک غلطی یہ ہے کہ بعضے لوگ سمجھتے ہیں کہ بے قصور طلاق دینے سے طلاق نہیں ہوتی، یا بلا رضامندی عورت کے طلاق نہیں ہوتی۔ سو یہ دونوں باتیں بھی غلط ہیں، دونوں حالت میں طلاق واقع ہوجاتی ہے، گو بلا قصور ایسا کرنا سخت مذموم ہے۔نشے کی حالت میں طلاق دینے سے طلاق واقع ہوجاتی ہے : بعضے لوگ سمجھتے ہیں کہ نشے کی حالت میں مثل جنون کے غیر مکلف ہوتا ہے، اس حالت میں طلاق دینے سے طلاق واقع نہیں ہوتی۔ سو یہ بھی غلط ہے، اس کا حکم جنون کا سا نہیں ہے، البتہ اگر کسی حلال چیز کے کھانے سے ضعفِ مزاج (طبیعت کی کمزوری) کے سبب نشہ ہوگیا، اس نشے کا حکم مثل جنون کے ہے، کہ اس حالت میں طلاق دینے سے طلاق واقع نہ ہوگی۔کلمۂ کفر زبان سے نکل جانے پر تجدید ِنکاح ضروری ہے : بعض لوگ صرف طلاق ہی کو مزیلِ نکاح(نکاح ختم کرنے والی) سمجھتے ہیں، یعنی زوالِ نکاح کو صرف طلاق میں منحصر سمجھتے ہیں، چناںچہ اس بنا پر اگر کسی سے کلمۂ کفر صادر ہوجائے تو تجدیدِ ایمان کی تو ضرورت سمجھی جاتی ہے، مگر تجدیدِ نکاح کی ضرورت نہیں سمجھتے، حالاںکہ مرتد ہوجانا بھی سببِ زوالِ نکاح ہے، بعد تجدیدِ ایمان کے تجدیدِ نکاح بھی واجب ہے۔شوہر کو باپ یا بھائی کہنے سے طلاق واقع نہیں ہوتی : ایک غلطی اس کے مقابل یہ ہے کہ بعض ایسے اسباب کو موجبِ حرمت سمجھتے ہیں جو واقع میں مزیلِ ۔ّحلت (حلال ہونے کو ختم کرنے والے) نہیں، جیسے: عورت اپنے شوہر کو ’’باپ‘‘ یا ’’بھائی‘‘ کہہ دے تو اس سے نہ طلاق ہوتی ہے، نہ وہ اس پر حرام ہوتا ہے، یعنی ۔ِظہار بھی نہیں ہوتا، بلکہ اگر مرد بھی عورت کو یہ کہہ دے کہ ’’تو میری ماں یا بہن ہے‘‘، تب بھی ایک لغو بات تو ہے لیکن اس کا اثر نکاح پر یا ۔ّحلت پر کچھ بھی نہیں ہوا، البتہ بعض الفاظ سے ۔ِظہار ہوجاتا ہے، تو وہ خاص خاص الفاظ ہیں، جو مع اپنے حکم کے کتبِ فقہ میں مذکور ہیں۔