اصلاح انقلاب امت - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
ہوتی ہے ، نہ دوسرے مقتدیوں کی،پس کتنی بڑی تباہی کی بات ہے۔ دوسرے اس طور سے کہ یہ امام صاحب اگر زمرہ اہلِ علم ہوئے تو ۔ُعلما کی عوام میں سخت بے وقعتی ہوتی ہے، جس کا اثر ایک گونہ ۔ُعلما کے اتباع و اقتدا تک بھی سرایت کرسکتاہے، ہر چند کہ تجوید کے وجوب کے متعلق کلام طویل و مقتضائے تفصیل ہے مگر اتنی قدر میں کسی کو کلام نہیں کہ جس قسم کی غلطیوں کا ذکر اوپر ہوا ہے ان کی تصحیح واجب علی العین ہے،جب تک کہ عدمِ قدرت و عدمِ مساعدتِ لسان متیقّن نہ ہوجائے، جس کی موٹی دلیل یہ ہے کہ بدون اس قدر تصحیح کے قرآن کی عربیت باقی نہیں رہتی اور عربیت بدلالت خصوص لوازمِ قرآن سے ہے، پس اس کے نہ رہنے سے قرآن نہ رہے گا، پس اس کی ضرورت میں کیسے اشتباہ ہوسکتاہے؟ اس میں قرآن کی یا عربی کی کیا تخصیص ہے؟ ہر زبان کی صحت اس کے خاص طرزِ ادا پر موقوف ہے، مثلاً: لفظِ ’’پنکھا‘‘ اور ’’رنگ‘‘ میں اخفا ہے، اگر ’’نون‘‘ میں اظہار کیا جائے یقینا لفظ غلط ہوجائے گا۔ اور لفظِ ’’کھنبا‘‘ اور ’’دُنبہ‘‘ میں اقلاب ہے، اگریہ نہ ہو تو یقینا لفظ غلط ہوجائے گا، مگر بات یہ ہے کہ قلوب میں ادراک نہیں رہا، نعمائے آخرت کی رغبت، نعمائے دنیا کے برابر نہیں رہی۔ {اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ}1 ہم اللہ تعالیٰ ہی کامال ہیں، اور ہم اسی کی طرف لوٹ کرجانے والے ہیں۔تصحیحِ قرآن صرف دو ہفتے میں : کل حروف اٹھائیس ہیں، ان میں بعض بعض تو قریب قریب صحیح نکلتے ہیں، ان کومستثنیٰ کرکے جن میں اہتمام کی حاجت ہے ، تقریباً ایک رُبع یعنی سات ہیں، جیسے:’’ث، ح، د، ص، ض، ط، ظ‘‘ اور جو بالکل دیہاتی ہیں، ان کے لیے اتنے ہی اور ہیں، جیسے: ’’ز، ش، ع، غ، ف، ق‘‘ اگرکسی ماہر کو تلاش کرکے ایک گھنٹہ روزانہ مشق کے لیے نکالا جائے تو روزانہ ایک حرف کی ضرور مشق ہوسکتی ہے، جس میں ایک ہفتہ اور دیہاتی کے لیے دو ہفتے کافی ہیں، اگر احتیاطاً اس سے دُگنی ۔ّمدت لی جائے تو آدھا مہینہ اور ایک مہینہ غایت صرف ہوتاہے، تو کیا دین کی اتنی بڑی ضرورت کے لیے اپنی اتنی بڑی عمر میں سے اتنا حصہ بھی نہیں دے سکتے ہو؟ کتنا بڑا غضب اور ستم ہے! اسی طرح فتح اور الف کی مقدارکا فرق ہے، اگرایک پارے میں اس کی درستی ہوجائے تو تمام قرآن یکساں ہی تمام کے لیے کافی ہے، اگر ایک رُکوع روزانہ درست کرلیا جائے تو یہ کام بھی پندرہ بیس روز سے زیادہ کا نہیں ہے، پھر بقیہ قرآن بھی ہے، تھوڑا تھوڑا کرکے کسی ماہر کو سنادینا، جو متفرق اوقات میں نہایت سہل ہے، زیادہ اطمینان اور احتیاط کی بات ہے۔ بعض لوگوں کو ماہر قرأت میسر نہ آنے کا بہانہ ہوتاہے لیکن اوّل تو اتنی تھوڑی مہارت رکھنے والے اکثر جگہ ایک دوپائے