اصلاح انقلاب امت - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
اغراض میں ایسے طورپر کام لینا کہ گویا قرآن اسی کام کا رہ گیا ہے، جس کا قرینہ اور علامت یہ ہے کہ اس کے علم اور اس پر عمل کی طرف کبھی توجہ نہ کی جائے مگر ایسے موقعوں پر قرآن یاد آئے، کیا یہ ظلم وضع الشيء في غیر محلہ (بے جا استعمال) نہیں ہے؟ پھر اس پر اور مزید اگر یہ سمجھا جائے کہ اس بچے کا یہ نام ہونا یہ مفہومِ قرآنی ہے، کیا یہ افترا علی اللہ نہیں ہے؟ خاص کر وہ دوسری صورت کہ اگر حرف ’’خ‘‘نکل آیا تو ’’خدا بخش‘‘ نام کو قرآنِ مجید کی طرف منسوب کرنا افترا در افترا ہے۔ پھر اس پر کچھ وصول کرلینا، کریلا اور نیم چڑھاکی مثال کا مصداق ہے، کیا یہ اشترائے دنیا بالقرآن کی اَقبح الافراد نہیں ہے؟ اگرنام برکت کا مقصود ہے، اوّل تو وہ قرآن کے ایسے مطالعے پر موقوف نہیں، حضراتِ انبیا ؑ کے نام پر نام رکھ دو، اور اسمائے حسنیٰ الٰہیہ میں سے کسی نام کے ساتھ ’’عبد‘‘ لگاکر رکھ دو، بالخصوص ’’عبداللہ‘‘ و’’عبدالرحمن‘‘ کی بالتعیین ترجیح وارد ہے، اور اگر قرآن سے بھی اس نام کا ۔ّتلبس مقصود ہے تو کسی عالم محقق سے رجوع کیجیے، وہ قرآن کے کسی مضمون یا کسی لفظ کی مناسبت کے لحاظ سے خواہ قرآن دیکھ کر ایسے طریقے سے کہ اس میںغلو نہ ہو جیسا عن قریب نمبر ۲ میں آتاہے، یا قرآن کے بے دیکھے کسی اپنی محفوظ آیت سے کوئی نام بتلادیں گے، نہ بس کی ضرورت، اور نہ اس اعتقاد کی اجازت کہ قرآن میں اس نام رکھنے کاحکم نکلا ہے۔ اس قسم کی خرابیاں ان بندگانِ زر نے پھیلائی ہیں جو عوام کی نظر میں کوئی دینی امتیاز رکھتے ہیں، مثلاً: خود مکرو فریب سے پیر بن گئے ہیں، یاکسی بزرگ کی اولاد میں ہوئے، فی الواقع یا بالاِدّعا۔ ایسے اُمور کی نسبت حضرت عارف شیرازی 1کا ارشاد ہے ع دام تزویر مکن چوں دیگراں قرآن را قرآن کو دوسروں کی طرح جھوٹ کا پھندہ نہ بناؤ۔قرآن سے فال نکالنا : ۲۔ بعضے کسی مقصدِمباح یا غیر ِمباح میں اوفق بالمصلحت پہلو کی تعیین کے لیے اور بعضے اس سے بڑھ کر کسی گزشتہ واقعے کے معلوم کرنے کے لیے قرآنِ مجید میں فال دیکھتے ہیں، اس کے کسی مضمون سے اپنے مطلب کے مناسب کوئی بات نکال لیتے ہیں، اور اس کی صحت کے معتقد ہوتے ہیں۔ افسوس! یہ آفت نیم علم لوگوں میں ہے، کیوںکہ بے علم آدمی مضمون ہی کو نہیں سمجھے گا، جو ماخذ ہے’’فال‘‘ کا، بہ خلاف