اصلاح انقلاب امت - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
اس کا احترام ثابت ہوتا ہے۔نسبی ماں کا حق رضاعی ماں سے مقدّم ہے : من جملہ اُن کے ایک غلطی جو اس کے مقابل جانب میں ہے، یہ ہے کہ بعضے آدمی اس کا اتنا بڑا حق سمجھتے ہیں کہ خود نسبی (حقیقی) ماں کا حق بھی اس کی ماں ہونے کے سبب اتنا نہیں سمجھتے جتنا دودھ پلانے کے سبب سمجھتے ہیں، حتیٰ کہ خود ماں بھی، چناںچہ بعض مواقع پر یہ کہتی ہیں کہ ’’میںدودھ نہ بخشوں گی‘‘ اور مخاطب ڈَر جاتاہے، بلکہ بعض کواس فکر میں مبتلا دیکھا گیا ہے کہ ’’کیا کریں ہماری ماںمر گئی اور ہم دودھ نہیں بخشوانے پائے۔‘‘ سو یہ اصلاً وفرعاً ہر طرح باطل ہے، اصلاً تو ظاہر ہے کہ ماں کاہرحال میں حق منصوص ہے۔ اور فرعاً اس لیے کہ دودھ پینا بچے کے لیے کوئی گناہ تھوڑا ہی ہے جس کے ارتکاب کے بعد بخشوانے کی ضرورت ہو، اور اگر گناہ ہے تو بچہ اس وقت غیر مکلف(اَحکامِ شریعت کا شرعی اصطلاح میں پابند نہ) تھا، ماں البتہ مکلف (اَحکامِ شریعت کی پابند) تھی، اس کو پلانا بھی گناہ ہوا، وہ خود بھی گناہ گار ہوئی کہ حرام چیز بچے کو پلائی، خود اس کو اولاد سے معاف کرانا چاہیے، غرض یہ لغو بات ہے۔فعلِ ناجائز کی کسی کی اولاد کو اجازت نہیں : ایک غلطی یہ ہے کہ بعض سے لوگ اس دودھ پلانے کے سبب حضرت حلیمہؓ کا اتنا بڑا حق سمجھتے ہیں کہ اُن کی اولاد قرار دے کر اُن کے لیے لوٹ مار جوکہ فعلِ حرام ہے، حلال سمجھتے ہیں،بہت ہی سخت عقیدہ ہے۔ جب خاص حضور ﷺ کی اولاد کے لیے کسی فعلِ ناجائز کی اجازت نہیں، تو آپﷺ کی ۔ُمرضعہ(دودھ پلانے والی) کی اولاد کا تو ان کی نسبت بعید ہی تعلق ہے، پھر سب بدوؤں کا اُن کی اولاد میں ہونا یہ بھی مہمل حکایت ہے۔فرع قابلِ توجہ اہلِ علم : ۔ُفقہا نے رضاع کی تفسیر میں آدمیت کی قید لگائی ہے اور اس کو محترز بہیمیت ورجل (جانور اور آدمی کے دودھ سے بچنے) کو لکھا ہے، مگر جنّیہ سے اثباتاً یا نفیاً (ہاں یا نہ میں) تعرض (بحث) نہیں دیکھا گیا کہ آیا وہ اس باب میں بہیمہ (جانور) کے مثل ہے، جیسے نکاح کے باب میں یہی ہے کہ جنّیہ سے انسان کا نکاح جائز نہیں، یا مثل آدمی